مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:FSD-9162
تاریخ اجراء:10 جماد ی الاولی1446ھ/ 13 نومبر2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کےبارے میں کہ اگر کوئی شخص کسی مسلمان کو کافر و غیر مسلم کہے، اس کے متعلق کیا حکمِ شرع ہے؟ کیا قائل کافر ہو جائے گا یا نہیں؟ اس حکم میں مرد و عورت دونوں برابر ہیں یا دونوں کے لیے الگ الگ حکم ہے؟ اور کیا قائل پر کوئی حد بھی لگے گی؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
اگر کوئی شخص سچا مسلمان ہے، یعنی اللہ پاک کی وحدانیت، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ختم نبوت، جنت و دوزخ وغیرہا تمام ضروریاتِ دین پر ایمان رکھتا ہے، تو اسے " کافر"کہنے والے کی دو صورتیں ہیں:
(1)مسلمان کو" کافر"کہنے والا اگر اسے مسلمان ہی سمجھتا ہے، صرف گالی کے طور پر یا مذاق میں اسے" کافر "کہا ہے، تو کہنے والا کافر نہیں ہوگا، لیکن سخت گنہگار ہوگا، اس پر فوراً توبہ و استغفار کرنا لازم ہے۔
(2) کسی مسلمان کو کافر و غیر مسلم اعتقاد کرتے ہوئے " کافر" کہا، حالانکہ اس میں کوئی بات کفریہ نہیں تھی، تو "کافر "کہنے والا حدیثِ پاک کے ظاہر کے اعتبار سے خود کافر ہو جائے گا، کیونکہ کسی مسلمان کو کافر اعتقاد کرنا، اسلام کو کفر جاننا ہے ، لہٰذا س پر توبہ و تجدیدِ ایمان فرض ہے اور اگر شادی شدہ ہے، تو تجدیدِ نکاح بھی ضروری ہے۔نیز شریعتِ اسلامیہ میں اگرچہ ایسے شخص کے لیے کوئی مخصوص حدبیان نہیں ہوئی، لیکن اسلامی حکومت ہونے کی صورت میں حاکمِ اسلام ایسے شخص کو تعزیر کرےگا( یعنی اپنی صوابدید پر کوئی سزا دے گا)۔
جہاں تک عورت کے کسی مسلمان کو کافر اعتقاد کرتے ہوئے" کافر "کہنے کا تعلق ہے، تو عورت کے لیے بھی وہی حکم ہے، جو اوپر بیان کیا گیا، ہاں فرق یہ ہے کہ عورت کے کفریہ جملہ بولنے سے اس کا اپنے شوہر سے نکاح ختم نہیں ہوتا، بلکہ بدستورقائم رہتا ہے، البتہ توبہ و تجدیدِ ایمان کے بعد اسے احتیاطاً شوہر کے ساتھ نئے حق مہر کے ساتھ تجدیدِ نکاح پر مجبور کیا جائے گا۔
کسی مسلمان کو " کافر کہنے کے متعلق"صحیح مسلم " كی حدیثِ پاک میں ہے:”ایما امرء قال لاخیہ کافر فقد باء بھا احدھما ان کان کما قال والا رجعت الیہ“ ترجمہ: جو اپنے کسی (مسلمان) بھائی کو کافر کہے، تو وہ کفر دونوں میں سے کسی ایک پر لوٹتا ہے، اگر وہ شخص(جس کو کافر کہا گیا ہے)، ایسا ہی ہے، جس طرح دوسرے نے کہا(یعنی اس میں کفریہ بات ہے)،توکفراسی پرہے،ورنہ کہنے والے کی طرف کفر لوٹ آتا ہے۔(صحیح المسلم، جلد1، صفحہ57، مطبوعہ کراچی)
اسی مفہوم کی احادیثِ طیبہ بالفاظِ دیگر کئی کتبِ احادیث میں موجود ہیں۔
مذکورہ بالا حدیثِ پاک کے تحت شیخِ محقق شاہ عبد الحق محدث دہلوی حنفی بخاری رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ(سالِ وفات:1052ھ) "لمعات التنقیح فی شرح مشکاۃ المصابیح"میں لکھتےہیں:”وتوجيهه أنه لما قال للمسلم: كافر فقد جعل الاسلام كفرًا، واعتقد بطلان دين الاسلام، فافهم، وأما إذا قال بقصد الكذب والسب من غير اعتقاد بطلان دين الاسلام، فقد يوجه“ ترجمہ: اس حدیثِ پاک کی توجیہ یہ ہے کہ جب کسی شخص نے مسلمان کو(کافر اعتقادکرتے ہوئے) کافر کہا، تو گویا اس کے اسلام کو کفر بنا دیا اور دینِ اسلام کو باطل اعتقاد کیا(تو کفر اس قائل کی طرف لوٹ آئے گا)، بہرحال جب بطورِ جھوٹ یا گالی، کافر کہا، اس کے دین کے بطلان کا اعتقاد نہیں رکھا، تو پھر اس کی توجیہ کی جائے گی(یعنی قائل کو کافر نہیں کہا جائے گا)۔(لمعات التنقیح ،باب حفظ اللسان، جلد8، صفحہ142، مطبوعہ دار النوادر،دمشق)
مسلمان كو كافر كہنے کی صورت میں قائل پر حکمِ کفر ہونے یا نہ ہونے کے متعلق مجمع الانہر، جامع الفصولین، ذخیرۃ، بحر الرائق، درمختار، رد المحتار، فتاوی عالمگیری وغیرہا کتبِ فقہ میں ہے، واللفظ للآخر: ”والمختار للفتوى في جنس هذه المسائل أن القائل بمثل هذه المقالات إن كان أراد الشتم ولا يعتقده كافرا لا يكفر، وإن كان يعتقده كافرا فخاطبه بهذا بناء على اعتقاده أنه كافر يكفر“ ترجمہ: اس طرح کے مسائل میں فتویٰ کے لیے مختار قول یہ ہے کہ مسلمان کوکافرکہنے والے نے اگر اس طرح کے جملے سے گالی کا قصد کیا، وہ مسلمان کو کافر اعتقاد نہ کرتا ہو ،تو قائل کافر نہیں ہوگااوراگر وہ دوسرے کوکافر اعتقاد کرتا ہے، تو اس اعتقاد کی بنا پر دوسرے کو "کافر" کہنے سے قائل خود کافر ہوجائے گا۔(فتاوی عالمگیری، کتاب السیر، جلد2، صفحہ278، مطبوعہ کوئٹہ)
اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت الشاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ(سالِ وفات:1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں:”جمہورائمہ کرام فقہائے اعلام کامذہب صحیح ومعتمدومفتی بہ یہی ہے کہ جوکسی ایک مسلمان کوبھی کافر اعتقاد کرے، خودکافرہے۔“(فتاوی رضویہ، جلد11، صفحہ376، مطبوعہ رضافاؤنڈیشن ،لاھور)
مسلمان کوکافر کہنے والے کی سزا بیان کرتے ہوئے امامِ اہلِ سنّت رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں: ”کسی شخصِ مسلم پر بلا وجہ شرعی حکمِ تکفیر بحسب ظواہر احادیث صحیحہ و نصوص صریحہ جمہورفقہاءخود قائل کے لئے مستلزم کفر ہے”قال صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم فقد باء بہ احد ھما“ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کو "اوکافر "کہے، تو وہ کفر دونوں میں سے کسی ایک پر لوٹ پڑتاہے۔ اور اس پر ضرور تعزیر شرعی لازم ہے کہ حاکمِ اسلام کی رائے پر ہے،سلطان اسلام یا اس کے مقرر کردہ حکام ضرب وحبس سے قتل تک اسے تعزیر دے سکتے ہیں، تعزیر ہم لوگوں کے ہاتھ میں نہیں، ہمارے پاس اسی قدر ہے کہ اس سے میل جول سلام کلام ترک کریں....الخ۔“(فتاوی رضویہ، جلد21، صفحہ252، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)
صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1367ھ/1947ء) لکھتے ہیں: ”کسی مسلمان کو کافر کہا تو تعزیر ہے ۔رہا یہ کہ قائل خود کافر ہو گا یا نہیں ؟ اس میں دو صورتیں ہیں: اگر اسے مسلمان جانتا ہے تو کافر نہ ہوا، اگر اسے کافر اعتقاد کرتا ہے ، تو خود کافر ہے کہ مسلمان کو کافر جاننا ، دین اسلام کو کفر جاننا ہے۔“(بھارِ شریعت، جلد2،صفحہ408،مطبوعہ مکتبة المدینہ،کراچی)
عورت کے کلمۂ کفر بولنے کی صورت میں اس کا حکم بیان کرتے ہوئےاعلیٰ حضرت الشاہ اما م احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں :” اقول (میں کہتاہوں) بلکہ ان اکابر کے قول ماخوذ ومفتٰی بہ کو کہ قول ائمہ بخارا ہے فتوائے ائمہ بلخ رحمہم اللہ تعالیٰ سے، جسے فقیر نے باتباعِ نہرالفائق وغیرہ اختیار کیابُعد نہیں تجدید نکاح بنظرِ احتیاط ہے اور شوہر پر حرام ہوجانا موجب زوال نکاح نہیں، بارہا عورت ایک مدت تک حرام ہوجاتی ہے اور نکاح باقی ہے،جیسے بحال نماز وروزہ رمضان واعتکاف واحرام وحیض ونفاس، یوہیں جبکہ زوجہ کی بہن سے نکاح کرکے قربت کرلے زوجہ حرام ہوگئی ،یہاں تک کہ اس کی بہن کو جدا کردے اور اس کی عدت گزر جائے، بلکہ کبھی ہمیشہ کے لئے حرام ہوجاتی ہے اور نکاح زائل نہیں ، جیسے حرمت مصاہرت طاری ہونے سے کہ متارکہ لازم ہے، تو نکاح قائم ہے اور زن مفضاۃ کہ سبیلین ایک ہوجائیں نکاح میں اصل خلل نہیں، اور حرمت ابدی، دائم ہے،والمسائل منصوص علیھا فی الدر و غیرہ من الاسفار الخ(مسائل مذکورہ کی درمختار وغیرہ بڑی کتابوں میں صراحت کردی گئی)‘‘(فتاوی رضویہ، جلد 21، صفحہ245 ،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)
اور دوسرے مقام پر امامِ اہل سنّت رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں :”ہندہ نے پہلا فقرہ کہا ہو خواہ دوسرا، ہرطرح اس کاایمان جاتارہا کہ اس نے شرع مطہر کی توہین کی ، مگر ہندہ نکاح سے نہ نکلی، نہ ہرگز اُسے روا ہے کہ بعد اسلام کسی دوسرے سے نکاح کرلے لان الفتوی علٰی روایۃ النوادرلاجل فسادالزمان کما بیّنّاۃ فی فتاوٰنا(کیونکہ فساد زمانہ کی وجہ سے فتوٰی نوادر کی روایت پر ہے جیسا کہ ہم نے اس کو اپنے فتاوٰی میں بیان کیا ہے۔) ہاں! بعدِاسلام زید سے تجدید نکاح پر مجبور کی جائے گی، احتیاطا لاصل المذھب(احتیاط کے طور پر واسطے اصل مذہب کے۔) .... ولانفقۃ لمرتدۃ(مرتدہ کے لئے کوئی نفقہ نہیں۔) مگر مرتدہ ہونے سے مہرِ مدخولہ ساقط نہیں ہوتا ،تمام وکمال بدستور زید پر واجب ہے، تجدید نکاح میں مہرِجدید برضائے فریقین معیّن ہونا یا پہلی تعداد کا لحاظ کچھ ضرور نہیں، بلکہ ہندہ سب سے کم مہر پر مجبور کی جاسکتی ہے جس طرح نکاح پر مجبور کی جائےگی۔“(فتاوی رضویہ،جلد12،صفحہ263،264 ،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)
ایک تیسری صورت بھی ہوتی ہے کہ کسی کو کافر قرار دینے کے پیچھے کوئی شبہ ہوتا ہے، اس میں بہت سی مزید صورتیں بنتی ہیں، اس لئے اس کا حکم بیان نہیں کیا جارہا۔ وہ کوئی پیش آمدہ صورت ہو تو متعین طور پر بتا کر پوچھ لیا جائے۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
یزید اورابوطالب کے بارےمیں اہلسنت کے کیا عقائدہیں؟
اللہ تعالی کے ناموں میں سے ایک نام نوربھی ہے اس کے کیا معنی ہیں؟
دنیا میں جاگتی آنکھوں سے دیدارالہی ممکن ہے یانہیں؟
کیا اللہ عزوجل کو خدا کہہ سکتے ہیں؟
کیا شوہر کو مجازی خدا کہہ سکتے ہیں؟
کیا دُعا سے تقدیر بدل جاتی ہے؟
پیرپہ ایسااعتقادہو کہ پیرکافرہوتومریدبھی کافرہوجائے کہنا کیسا؟
ذات باری تعالی کےلیے چوہدری کا لفظ استعمال کرنا کیسا؟