نبی پاک ﷺ خود مدد کرتے ہیں یا اللہ سے دعا کرتے ہیں؟

حضور ﷺ خود مدد کرتے ہیں یا اللہ پاک سے دعا کرتے ہیں؟ نیز مختار کل کا کیا مطلب ہے ؟

دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں  کہ

(1) اگر کوئی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے فریاد کرے، تو  کیا  حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس  شخص  کی فریاد کے متعلق   اللہ عزوجل کی بارگاہ میں دعا فرماتے ہیں،یا اللہ عزوجل کی عطا سے بغیر دعا کیے  بھی اس کی مدد فرماتے ہیں؟ 

(2)حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مختارِکُل ہونے کا  کیا مطلب ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

(1)جب کوئی حاجت مند حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پکارتا ،فریاد کرتا اور مدد طلب کرتا ہے، تو حضور  صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اُس کے لیے دعا بھی فرماتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ کے اذن و عطا سے براہِ راست اس کی مدد  و حاجت روائی بھی فرماتے ہیں۔ یہ دونوں صورتیں قرآن و حدیث سے ثابت ہیں۔دلائل نیچے مذکور ہیں ۔

(2)حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مُختارِ کُل ہونے کے عقیدے کا معنیٰ بڑی وضاحت کے ساتھ صدر الشریعہ، مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ بیان فرمایا ہے: بہار شریعت میں ہے:’’حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم  اللہ عزوجل کے نائب مطلق ہیں ،تمام جہان حضور صلی اللہ  علیہ وسلم کے تحتِ تصرّف (اختیار میں )کر دیا گیا ، جو چاہیں کریں، جسے جو چاہیں دیں، جس سے جو چاہیں واپس لیں۔۔۔۔تمام زمین اُن کی مِلک ہے، تمام جنت اُن کی جاگیر ہے،ملکوت السمٰواتِ والارض حضور (صلی اللہ علیہ وسلم )کے زیرِ فرمان، جنت و نار کی کنجیاں دستِ اقدس میں دیدی گئیں، رزق وخیر اور ہر قسم کی عطائیں حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) ہی کے دربار سے تقسیم ہوتی ہیں، دنیا و آخرت حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کی عطا کا ایک حصہ ہے،احکامِ تشریعیہ(حلال وحرام کے احکامات) حضور (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے قبضہ میں کر دیے گئے  کہ جس پر جو چاہیں حرام فرما دیں اور جس کے لیے جو چاہیں حلال کر دیں اور جو فرض چاہیں معاف فرما دیں۔‘‘(بھار شریعت، جلد1،حصہ1 ،صفحہ79،85،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوکر  اللہ  عزوجل سے اپنے گناہوں کی معافی کرنے والے شخص   کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب  عزوجل سے دعا فرماتے ہیں ،چنانچہ  قرآن کریم میں  ارشاد باری تعالیٰ ہے

﴿ وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا ﴾

ترجمہ کنز العرفان :’’اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کربیٹھے تھے، تو اے حبیب! تمہاری بارگاہ میں حاضر ہوجاتے ،پھر اللہ سے معافی مانگتے اور رسول (بھی) ان کی مغفرت کی دعا فرماتے ،تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا، مہربان پاتے۔‘‘ (پارہ 5،سورۃ النساء: آیت64)

مذکورہ آیت کی وضاحت کرتے ہوئے علامہ فخر الدین رازی علیہ الرحمۃ تفسير كبير  میں  لکھتے  ہیں:

’’واستغفر لهم الرسول بأن يسأل اللہ أن يغفرها لهم عند توبتهم لوجدوا اللہ توابا رحيما ‘‘

ترجمہ:اور رسول ان کے لیےمغفرت طلب کریں یعنی ان کے اپنے گناہوں سے توبہ کرنے پر رسول ان کے لیےاللہ عزوجل سے مغفرت کا سوال کریں، تو وہ لوگ اللہ عزوجل کو ضرور بہت توبہ قبول کرنے والا، مہربان پائیں گے۔ (تفسیر کبیر،جلد8،صفحہ517، دار إحياء التراث العربي ، بيروت)

مرگی کے مرض میں مبتلا ایک عورت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ  میں  حاضر ہوکر فریاد کرنے لگی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چاہو تو صبر کرو اور چاہو تو میں تمہارے لئے اللہ عزوجل سے دعا کردوں  کہ وہ تمہیں ٹھیک کردے،چنانچہ صحیح بخاری شریف کی حدیث پاک ہے:

’’عن عمران أبي بكر، قال: حدثني عطاء بن أبي رباح، قال: قال لي ابن عباس: ألا أريك امرأة من أهل الجنة؟ قلت: بلى، قال: هذه المرأة السوداء، أتت النبي صلى اللہ عليه وسلم فقالت: إني أصرع، وإني أتكشف، فادع اللہ لي، قال: «إن شئت صبرت ولك الجنة، وإن شئت دعوت اللہ أن يعافيك» فقالت: أصبر، فقالت: إني أتكشف، فادع اللہ لي أن لا أتكشف، فدعا لها‘‘

ترجمہ:حضرت عمران ابو بکر سے روایت ہے فرماتے ہیں  کہ مجھے عطا بن ابی رباح نے بتایا، وہ فرماتے ہیں کہ مجھ سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:کیا میں تمہیں جنتی عورت نہ دکھاؤں؟میں نے عرض کیا: کیوں نہیں!انہوں نے فرمایا:یہ سیاہ فام عورت (جنتی ہے)، یہ  عورت  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا:مجھے مرگی کے دورے پڑتے ہیں اور میں (بے ہوشی میں) بے پردہ ہو جاتی ہوں، آپ اللہ عزوجل سے میرے لیے دعا فرمائیں۔تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم چاہو تو صبر کرو، تمہیں جنت ملے گی، اور اگر چاہو تو میں اللہ سے دعا کر دوں کہ وہ تجھے عافیت عطا فرمادے۔ عورت نے کہا: میں صبر کروں گی،پھر اس نے کہا:( لیکن )میری بے پردگی ہو جاتی ہے) آپ دعا کریں کہ میں بے پردہ نہ ہوں۔تو نبی کریم صلی اللہ  علیہ وسلم نے اس کے لیے دعا فرما دی۔(صحیح البخاری، جلد7، صفحہ116، رقم الحدیث5652،دار طوق النجاۃ)

صحابی  رسول حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ عنہ نے  حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے جنت مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعطائے الہی ان کو جنت عطا فرمادی،چنانچہ صحیح مسلم،سنن ابی داؤد اور دیگر کتب احادیث میں ہے:

واللفظ لابی داؤد’’عن أبي سلمة، قال: سمعت ربيعة بن كعب الأسلمي، يقول: كنت أبيت مع رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم آتيه بوضوئه وبحاجته، فقال: «سلني»، فقلت: مرافقتك في الجنة، قال: «أو غير ذلك؟» قلت: هو ذاك، قال: «فأعني على نفسك بكثرة السجود» ‘‘

ترجمہ:حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ عنہ کوفرماتے ہوئے سنا :میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رات گزارتا تھا۔(ایک دن)میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کا پانی اور ضروری چیزیں لے کر آیا،تو آپ نے فرمایا :مجھ سے  مانگ لو۔میں نے عرض کی:میں جنت میں آپ کا ساتھ مانگتا ہوں،حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اس کے علاوہ اور کچھ؟میں نے عرض کیا:بس یہی ،تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اپنی ذات پر زیادہ سجدوں سے میری مدد کرو۔(سنن ابی داؤد،جلد2،صفحہ35،رقم الحدیث1320،المكتبة العصريہ، بيروت)

سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ فتاوی رضویہ  میں مذکورہ حدیث نقل کرنے کے بعد لکھتے  ہیں:’’حضور والا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا مطلق طور پر ’’سَلْ‘‘ فرماناکہ مانگ کیا مانگتاہے، جس سے صاف ظاہر ہے کہ حضو رہر قسم کی حاجت روا فرماسکتے ہیں، دنیا وآخرت کی سب مرادیں حضور کے اختیار میں ہیں، جب تو بلاتقیید وتخصیص فرمایا: مانگ کیا مانگتاہے۔

حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی قدس سرہ القوی شرح مشکوٰۃ شریف میں اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں:

’’ ازاطلاق سوال کہ فرمود سل بخواہ وتخصیص نکرد بمطلوبی خاص معلوم میشود کہ کارہمہ بدست ہمت و کرامت اوست صلی تعالٰی علیہ وسلم ہر چہ خواہد وہر کراخواہد باذن پروردگار خود بدہد ۔فان من جودک الدنیا وضرتہا ومن علومک علم اللوح والقلم ‘‘

مطلق سوال کے متعلق فرمایا ''سوال کر'' جس میں کسی مطلوب کی تخصیص نہ فرمائی، تومعلوم ہوا کہ تمام اختیارات آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے دست کرامت میں ہیں، جو چاہیں جس کو چاہیں اللہ تعالیٰ کے اذن سے عطا کریں، آپ کی عطا کا ایک حصہ دنیا وآخرت ہے اور آپ کے علوم کا ایک حصہ لوح وقلم کا علم۔ (ت)

علامہ علی قاری علیہ رحمۃ اللہ  الباری مرقاۃ میں فرماتے ہیں:

’’یوخذ من اطلاق صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم الامربالسؤال ان ﷲ مکنہ من اعطاء کل مااراد من خزائن الحق ‘‘

 یعنی حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے جو مانگنے کا حکم مطلق دیا اس سے مستفاد ہوتاہے کہ اللہ عزوجل نے حضور کوقدرت بخشی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے خزانوں میں سے جو کچھ چاہیں عطافرمائیں۔ (فتاوی رضویہ،جلد21،صفحہ310،309،رضافاؤ نڈیشن،لاھور)

اوپر مذکورہ حدیث اور اس کے تحت ہونے والا  کلام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مُختارِ کُل ہونے کو بھی واضح کرتا ہے ،تاہم مزید اس حوالے سے چند عبارات ملاحظہ ہوں۔

المواہب اللدنیہ میں ہے:

’’فهو-صلى اللہ عليه وسلم- وإن تأخرت طينته، فقد عرفت قيمته، فهو خزانة السر، وموضع نفوذ الأمر، فلا ينفذ أمر إلا منه، ولا ينقل خير إلا عنه‘‘

ترجمہ: وہ (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم) اگرچہ (ظاہری طور پر) بعد میں پیدا ہوئے،( لیکن) ان کی قدر و منزلت  جان لی گئی ہے ۔ وہ راز الہی کا خزانہ  ہیں، اور احکام الہیہ کے نفاذ کا مرکز ہیں۔ہر حکم آپ ہی سے نافذ ہوتا ہے اور ہر خیر و بھلائی آپ ہی کے ذریعے منتقل ہوتی ہے۔(المواھب اللدنیہ،جلد1،صفحہ39،مطبوعہ مصر)

سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فتاوی رضویہ میں فرماتے ہیں:’’ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت اور کُل نعمت کے خزانے اور اپنے فیض وکرم کے خوان (دستر)اُن کے ہاتھوں کے مطیع کردئیے ، اور  یہ سب اُنہیں سونپ دیا جیسے چاہیں خرچ کریں۔‘‘(فتاوی رضویہ،جلد28،صفحہ522،رضافاؤندیشن،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مجیب: مفتی محمد  قاسم عطاری

فتوی نمبر: FAM-758

تاریخ اجراء: 24 ذی القعدۃ الحرام1446ھ/22 مئی 2025ء