Panch Namazon Mein Se Kisi Namaz Ka Inkar Karna

 

پانچ نمازوں میں سے کسی نماز کا انکار کرنے والے کا حکم

مجیب:مولانا محمد ابوبکر عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3546

تاریخ اجراء: 05شعبان المعظم 1446ھ/04فروری2025ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   ایک شخص ہے جو اللہ ، رسول، قرآن، قیامت ، جنت و دوزخ سب پر ایمان رکھتا ہے ، مگر وہ کہتا ہے کہ نمازیں پانچ نہیں بلکہ تین ہیں کیونکہ قرآن پاک میں صرف تین ہی نمازوں کا ذکر ہے ، ایسے شخص کے بارے میں کیا حکم ہے ؟کیا اس کا جنازہ جائز ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اگر واقعی وہ شخص دو نمازوں کی فرضیت کا ہی منکر ہے تو وہ مرتد  ہے  اور اس کا جنازہ پڑھنا حرام ہے ۔پانچ نمازوں کی فرضیت قطعی ہے اور یہ ضروریات دین میں سے ہے قرآن و حدیث و اجماع امت  سے پانچ نمازوں کی فرضیت ثابت ہے ۔ لہذا نمازپنجگانہ میں سےکسی ایک نماز کی فرضیت کا منکر بھی مسلمان نہیں رہتا، خواہ وہ دیگر تمام اسلامی باتوں پر ایمان رکھتا ہو۔

   بدائع الصنائع میں ہے "وأما عددها فالخمس، ثبت ذلك بالكتاب، والسنة، وإجماع الأمة"ترجمہ: بہر حال نمازوں کی تعداد تو وہ پانچ ہے جو قرآن و سنت و اجماع امت سے ثابت ہے۔(بدائع الصنائع  ،ج1، ص91،دار الكتب العلمية )

   در مختار میں ہے :" (ويكفر جاحدها) لثبوتها بدليل قطعي" ترجمہ: نماز کے منکر کی تکفیر کی جائے گی اس کے دلیل قطعی سے ثابت ہونے کی وجہ سے۔(در مختار، ج01، ص352، دار الفكر-بيروت)

   ماہنامہ اشرفیہ میں ضروریات دین کے مصادیق  میں ہے :"پنج وقتیہ نمازوں کا وجوب، پنج وقتیہ نمازوں کی رکعات۔" (ماہنامہ اشرفیہ ، ص31، فروری 2015)

   بہار شریعت میں ہے "    ایمان اسے کہتے ہیں کہ سچے دل سے اُن سب باتوں کی تصدیق کرے جو ضروریاتِ دین ہیں اور کسی ایک ضرورتِ دینی کے انکار کو کفر کہتے ہیں، اگرچہ باقی تمام ضروریات کی تصدیق کرتا ہو۔ "(بہار شریعت، جلد1، حصہ1، صفحہ172، مکتبہ المدینہ)

   ایسا ہرگز نہیں ہے کہ قرآن پاک میں صرف تین نمازوں کا ذکر ہو بلکہ پانچ نمازوں کا ثبوت قرآن پاک سے ہوتا ہے جیسا کہ بنایہ شرح ہدایہ میں ہے :" وأما فرضية الخمس فقوله تعالى: {حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى} [البقرة: 238] (البقرة: الآية 238) ، وهذه الآية قاطعة الدلالة على فرضية الخمس لأنه تعالى فرض جمعا من الصلوات والصلاة الوسطى معها وأقل جمع صحيح معه وسطى هو الأربع دون الثلاث،۔۔۔ قوله تعالى: {فسبحان الله حين تمسون} [الروم: 17] (الروم: الآية 17) أراد به المغرب والعشاء، {وحين تصبحون }أراد به الصبح {وعشيا }أراد به صلاة العصر {وحين تظهرون }الظهر.وأما من السنة، فحديث طلحة بن عبيد الله بن عثمان بن عمرو بن كعب قال: «جاء إلى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - رجل من أهل نجد ثائر الرأس يسمع دوي صوته ولا يفهم ما يقول حتى دنى من رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فإذا هو يسأل عن الإسلام فقال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: " خمس صلوات في اليوم والليلة "، فقال: هل علي غيرها؟ قال: " لا، إلا أن تطوع.» رواه البخاري ومسلم." ترجمہ: بہر حال پانچ نمازوں کی فرضیت تو اللہ تعالی کا فرمان ہے "تمام نمازوں کی پابندی کرو خصوصا درمیانی نماز کی" یہ آیت پانچ نمازوں کی فرضیت پر قطعی دلیل ہے  کہ اللہ تعالی نے جمع کے صیغے کے ساتھ نمازیں فرض کیں اور ان کے ساتھ درمیانی نماز بھی فرض کی اور جمع کی کم سے کم مقدار کہ  جس کے ساتھ درمیانی صحیح ہو، وہ چار ہے نہ کہ تین ۔۔۔ اللہ تعالی کا فرمان  "اور اللہ کی پاکی بولو جب شام کرو" اس سے مغرب و عشا مراد ہے "اور جب صبح کرو" اس سے فجر مراد ہے "اوراس وقت جب دن کا کچھ حصہ باقی ہو" سے مراد عصر "اور جب تم دوپہر کرو" سے مراد ظہر ہے۔بہر حال سنت تو حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اہل نجد سے ایک شخص آیا  جس کے بال بکھرے تھے  اس کی گنگناہٹ سنائی دیتی تھی، اس کی بات  سمجھ نہ آتی تھی، یہاں تک کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہوا اور اسلام کے بارے میں سوال کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پانچ نمازیں دن اور رات میں، تو اس نے کہا اس کے علاوہ مجھ پر کچھ ہے ؟ تو فرمایا: نہیں، ہاں یہ کہ تو نفلی نماز اداکر۔ اسے بخاری و مسلم نےروایت کیا ہے۔(البنایۃ شرح الھدایۃ، ج2، ص5، دار الكتب العلمية - بيروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم