Pehle ke Ulama Scientist The Aaj ke Kyun Nahi?

پہلے کے علماء سائنسدان تھے، آج کے کیوں نہیں؟

مجیب:محمد احمد سلیم  مدنی

مصدق:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:FSD-8851

تاریخ اجراء:08شوال المکرم 1445ھ/17 اپریل 2024

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ کچھ لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ علماء نے خود کو مساجد و مدارس تک محدود رکھا ہوا ہے اور دورِ جدید میں علماء کا سائنس میں کوئی کردارنہیں  ہے،جبکہ پہلے دور کے علماء سائنسدان بھی ہوا کرتے تھے، تو کیا موجودہ دور کے علماء کو بھی سائنسدان بن کر سائنسی میدان میں کردار ادا نہیں کرنا چاہیے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   یہ جملہ کہ ’’پہلے دور کے علماء سائنس دان بھی تھے‘‘ ایک غلط فہمی، افواہ اور بناوٹی سا جملہ ہے، جسے لوگوں میں پھیلا دیا گیا ہے اور جب بھی موجودہ دور کے علماء کی قابلیت پر سوال کھڑا کرنا ہو، تو یہ جملہ بڑی کثرت سے دہرایا جاتا ہے، جبکہ اگر اس جملے کو کھنگالا جائے اور ایسے سائنس دان علماء کی لسٹ بنوا لی جائے تو ساری قلعی کھل جائے گی کہ کتنے علماء سائنس دان تھے۔

اس حوالے سے چند ایک باتیں پیش خدمت ہیں:

   (1)اولاً یہ کہ موجودہ دور کے علماء پر سائنسدان نہ ہونے کا اعتراض کرنے والوں سے چند ایک سوال ہیں کہ یہ بتا دیا جائے کہ صحابہ کرام کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار ہے، ان میں کتنے سائنسدان تھے؟ کتنے صحابہ کیمیا دان تھے؟ کسی ایک کا نام بتا دیا جائے۔

   اسی طرح تابعین کے زمانے میں مسلمانوں میں کیمیا گری شروع ہو گئی تھی، اور تابعین کی تعداد لاکھوں میں تھی اور ان میں سینکڑوں علماء تھے، ان میں کتنے علماء سائنس دان تھے؟ مدینے کے سات فقہاء (سعید بن مسیب، عروہ بن زبیر، قاسم بن محمد بن ابی بکر، ابو بکر بن عبد الرحمن بن حارث، خارجہ بن زید بن ثابت، عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ، سلیمان بن یسار رحمھم اللہ تعالی)  میں سے کون کون سائنسدان تھا؟کیا یہ علماء نہیں تھے؟

   اسی طرح ائمہ اربعہ (امام اعظم، امام شافعی، امام مالک، امام احمد بن حنبل رحمھم اللہ تعالی) میں کون کون سائنس دان اور کیمیا دان تھا؟

   اسی طرح امام ثوری، امام نخعی، امام زہری، امام شعبی، امام اسود، امام علقمہ، امام حماد اور ان کے بعد امام ابو یوسف، امام محمد، امام زفر رحمھم اللہ تعالی میں سے کس کو سائنس دان شمار کیا جاتا ہے؟

   بکری کا دودھ حلال ہےاسے پینے یا دیگر کسی بھی جائز کام میں استعمال میں لایا جاسکتا ہے،خواہ بکری نے بچہ جنا ہو یا نہیں۔

   اسی طرح صحاح ستہ کے مصنفین کو لے لیں کہ امام بخاری، امام مسلم، امام ترمذی، امام ابوداؤد، امام نسائی، امام ابن ماجہ اور اسی طرح دیگر محدثین، جیسے امام مالک، امام دارمی، امام بیہقی، امام ابن ابی شیبہ، امام عبد الرزاق، امام ابن حبان، امام طبرانی علیہم الرحمۃ میں سے کتنے علماء سائنس دان تھے؟ ان میں سے کون فلکیات دان اور کون ریاضی دان تھا؟

   در اصل اس طرح کے معترض لوگ تاریخ، سیرت اور علماء کے حالات زندگی سے ناواقف ہوتے ہیں اور بغیر کسی تحقیق کے کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ پرانے زمانے کے علماء سائنس دان تھے، حالانکہ اوپر جو درجنوں کی تعداد میں بڑے بڑے علماء کے نام ذکر کیے گئے ہیں، ان میں سے تو کوئی بھی سائنس دان نہیں تھا، تو اگر یہ اعتراض کرنا ہے کہ آج کے علماء سائنس دان نہیں ہیں اور آج کے علماء کو سائنس نہیں آتی، تو یہی اعتراض ان بڑے بڑے علماء پر بھی ہو سکے گا، کیونکہ ان میں بھی کوئی سائنس دان نہیں تھا، جبکہ ان کِبار علماء پر  کوئی جاہل اور دین سے دور شخص ہی اعتراض کرنے کا سوچ سکتا ہے۔

   (2) ثانیاً یہ کہ اگر بالفرض اس بات کو تسلیم کر ہی لیا جائے کہ پہلے کے علماء سائنس دان بھی تھے، اور ایسا کہنے والے سے پوچھا جائے کہ ذرا اُن سائنس دان علماء کے نام ہی بتا دیں، تو جواب میں اُن افراد کا نام لیا جاتا ہے جو اپنے شعبے کے تو ماہر تھے، مگر وہ کوئی بڑے عالم نہیں تھے، مثلا :سائنس دان علماء کے نام کے طور پر یہ کہا جائے گا کہ خوارزمی، تو عرض یہ ہے کہ خوارزمی ایک اچھا ریاضی دان تھا، مگر اس کا شمار دین کے معتبر علماء میں تو ہوتا ہی نہیں، اور نہ ہی کسی نے لکھا ہے کہ وہ دین کا بھی بہت بڑا ماہر تھا۔

   پھر ایک جواب آئے گا کہ ابن سینا، تو گزارش ہے کہ ابن سینا ایک فلسفی اور ماہر طب (میڈیکل ایکسپرٹ) تھا، مگر دین کے اعتبار سے وہ کوئی محدث یا مفسر یا کوئی فقیہ نہیں تھا۔

   اسی طرح ایک نام جابر بن حیان کا لیا جاتا ہے، جبکہ جابر بن حیان علم کیمیا کا تو ماہر تھا، مگر کسی تاریخ دان یا سیرت نگار نے یہ نہیں لکھا کہ یہ دین کا بھی بہت بڑا عالم یا مفتی بھی تھا۔

   اسی طرح ایک نام ابن رشد کا بھی لیا جاتا ہے، جو ماہر فلکیات و فلسفی تھا، چند ایک فقہی کاموں کے علاوہ ابن رشد کی باقاعدہ کوئی عالمانہ شہرت نہیں تھی، بلکہ اسے عالم دین کی بجائے فلسفی و ماہر فلکیات کے طور پر ہی دیکھا جاتا تھا۔

   یا سائنسدان علماء کے نام پر جن افراد کا نام لیا جاتا ہے وہ عالم تو ہوتے ہیں، مگر سائنسدان نہیں ہوتے، جیسے ایک نام امام غزالی علیہ الرحمۃ کا لیا جاتا ہے کہ جن کی دین میں اعلی درجے کی مہارت تھی، لیکن جواباً عرض ہے کہ امام غزالی ایک مسلمان عالم دین اور فلسفی تھے، مگر سائنسدان نہیں تھے اور سائنس اور فلسفے میں زمین آسمان کا فرق ہے، فلسفہ سائنس نہیں ہوتا، جو فلسفے کو سائنس بولے، اُسے درحقیقت سائنس کی تعریف ہی نہیں آتی۔ارسطو سائنس دان نہیں تھا، فلاسفر تھا، افلاطون سائنس دان نہیں تھا، فلاسفر تھا، اسی طرح امام غزالی سائنس دان نہیں تھے، ایک فلسفی تھے۔

   اسی طرح ایک اور نام امام رازی علیہ الرحمۃ کا لیا جاتا ہے، جبکہ یہ بھی عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ فلسفی تھے، سائنس دان نہیں تھے۔

   لہٰذا جب سائنس دان علماء کی فہرست مانگی جاتی ہے، تو جن افراد کا نام پیش کیا جاتا ہے، وہ یا تو عالم دین نہیں ہوتے یا عالم دین تو ہوتے ہیں مگر سائنس دان نہیں ہوتے، لہذا یہ دعویٰ کرنا کہ پہلے کے علماء سائنس دان بھی ہوا کرتے تھے، درست نہیں۔

   (3)ثالثاً یہ کہ یہ بات ضرور ہے کہ تاریخ اسلام میں چند ہستیاں ایسی گزری ہیں کہ جو غیر معمولی( Extra ordinary) ذہانت و فطانت کی مالک تھیں، اور اپنی خداداد صلاحیتوں کی وجہ سے وہ اسلام کے بھی بہت بڑے عالم تھے اور سائنس کے بھی ماہر بن گئے یا وہ فلکیات کے بھی ماہر تھے یا عالم ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ریاضی کے بھی ماہر تھے، مگر ان کا اصل شعبہ سائنس یا فلسفہ یا فلکیات وغیرہ نہیں تھا، بلکہ ان کا اصل شعبہ دین اسلام ہی تھا، ان کا اصل مشن قرآن و حدیث کی خدمت ہی تھا، سائنس وغیرہ جیسے علوم ضمنی طور پر تھے، جیسے اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ کہ وہ زبردست عالم بھی تھے کہ ان کی قرآن و حدیث کی خدمات کو دیکھیں ان کی فقہی صلاحیتوں اور دینی علوم کی وسعت دیکھیں، تو عقل دنگ رہ جائے اور ساتھ ہی ساتھ وہ سائنس کے بھی ماہر تھے، فلسفے کے بھی ماہر تھے، ریاضی کے بھی ماہر تھے، لیکن یہ ان کے اصل شعبے اور اصل قابلیت نہیں تھی، بلکہ اصل شعبہ و قابلیت قرآن و حدیث ہی تھے، سائنس، ریاضی، فلسفہ جیسے علوم ان کی ضمنی قابلیتیں ہیں۔

   (4) رابعاً یہ کہ جب کسی فرد کی خوبیاں دیکھنی ہوں، تو یہ دیکھا جاتا ہے کہ وہ جس فیلڈ کا آدمی ہے، اس فیلڈ کے اندر اس کی کیا مہارتیں ہیں؟ اس شعبے میں اس کی کیا قابلیتیں اور کیا صلاحیتیں ہیں؟ اور اس فیلڈ میں اس نے کون کون سے کارنامے سرانجام دئیے ہیں؟  اگر امام اعظم علیہ الرحمۃ کی خوبیاں تلاش کرنی ہیں، تو یہ دیکھیں گے کہ ان کا زُہد و تقوی کیسا تھا، ان کی قرآن و حدیث سے استدلال کی قوت کیسی تھی ؟ ان کی فقاہت کا کیا عالَم تھا، ان کا مرتبہ اجتہاد کس قدر عظیم و بلند پایہ تھا؟ یہ سب دیکھا جائے گا، یہ نہیں دیکھا جائے گا کہ انہیں سائنس کتنی آتی تھی۔ اسی طرح امام بخاری کی صلاحیتیں دیکھنی ہوں، تو ان کی علم حدیث کے حوالے سے خدمات دیکھی جائیں گی،یہ نہیں دیکھا جائے گا کہ انہیں ریاضی کتنی آتی تھی؟ تو اگر کوئی امام اعظم علیہ الرحمۃ کو اس لیے نہ مانے کہ انہیں سائنس نہیں آتی تھی یا کہے کہ میں امام شافعی کو نہیں مانتا کیونکہ انہیں ریاضی نہیں آتی تھی یا میں فلاں بڑے امام کو نہیں مانتا کہ انہیں فلکیات کا علم نہیں تھا، تو ایسے شخص کو پاگل ہی کہا جا سکتا ہے، اس لئے یہ عجیب و احمقانہ طرز عمل ہے کہ بات کسی عالم دین کی ہو رہی ہوتی ہے اور بے تکے انداز سے یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ وہ سائنس دان کیوں نہیں ہے، یا اسے سائنس بھی پڑھنے کی ضرورت ہے، جبکہ ہر صاحب عقل شخص یہ سمجھ سکتا ہے کہ ان باتوں کا کوئی سر پیر ہی نہیں ہے۔

   (5) خامساً یہ کہ اگر علماء کو اسی انداز سے پرکھنا ہے کہ قابل و بہتر عالم وہی ہے جو سائنس دان بھی ہو، تو پھر یہ ظلم صرف علماء کے ساتھ ہی کیوں کرنا ہے، پھر شاعروں میں بھی قابلِ تکریم شاعر اسے ہی سمجھا جائے جو شاعر بھی ہو اور سائنس دان بھی ہو،لہٰذا  مشہور اردو شُعراء مرزا غالب، میر تقی میر، مومن خان مومن، اکبر الہ آبادی، ڈاکٹر اقبال اور پاکستان کے سبھی شعراء  پر ایک نظر ڈال کر چیک کرلیں  کہ  کون کون سے شاعر سائنسدان بھی تھے، دعوے سے کہتا ہوں کہ  ایک بھی نام نہیں ملے گا، تو کیا ان شاعروں کا فن شعری اس وجہ سے رَد کر دیا جائے گا کہ انہیں سائنس نہیں آتی تھی یا ان کا کوئی سائنسی کارنامہ نہیں تھا؟ اب کیا کوئی شخص یہاں بھی یہ بے وقت کی راگنی گائے گاکہ میں ان شاعروں کو نہیں مانتا کیوں کہ یہ سائنسدان نہیں تھے۔

   اسی طرح کیا یہ بات صحافیوں کے بارے میں بھی کی جا سکتی ہے؟ کہ سارے کے سارے صحافی بے کار ہیں، کیونکہ ان میں بھی کوئی سائنس دان نہیں ہے؟ یا کسی صحافی کی کوئی سائنسی خدمات نہیں ہیں، یا صحافیوں کو ریاضی نہیں آتی، ان کو فلکیات نہیں آتی، ان کو کیمیا نہیں آتا، ان کو کیمسٹری کا علم نہیں ہے، اس لیے یہ سب ناکارہ ہیں؟ یا ان کی قابلیت کا اندازہ ان کے متعلقہ شعبے کی صلاحیتوں کو دیکھ کر کیا جائے گا؟

   اسی طرح کسی ملک کے سربراہ اور حکمران کو،چاہے وہ بادشاہ ہو یا وزیر اعظم یا صدر ہو، اگر اس کے دور میں ملک میں خوشحالی آ گئی، اس نے تعلیم کو ٹھیک کر دیا، صحت کا شعبہ اچھا ہو گیا، انفرا اسٹرکچر بہتر ہو گیا، لوگوں کو روز گار ملنے لگ گیا، تو کیا کوئی بے وقوف کھڑا ہو کر یہ کہہ سکتا ہے کہ میں اسے حکمران نہیں مانتا کیونکہ یہ سائنس دان نہیں ہے؟ یا یہ کیمیا دان نہیں ہے یا اس لیے نہیں مانتا کہ یہ ریاضی دان نہیں ہے؟ نہیں اور ہرگز نہیں، بلکہ حکمران کو اس کے نظام حکومت کے اعتبار سے پرکھا جائے گا۔

   اسی طرح کسی جج کے بارے میں کبھی کسی کو یہ تنقید کرتے سنا ہے کہ جج ہونا تو ٹھیک ہے، مگرچونکہ  سائنس دان نہیں ہے، اس لیے مسترد ہے یا ناکارہ ہے یا کسی کھلاڑی کے بارے میں سنا ہے کہ کھیلتا تو ہے، مگر اسے ریاضی نہیں آتی؟ یا کسی ڈاکٹر کے بارے میں سنا ہو کہ میڈیکل میں تو اچھا ہے، مگر فلکیات دان نہیں ہے؟ ان افراد پر ایسی تنقید کبھی کسی نے نہیں کی ہو گی۔

   تو جب شعراء کا معیار، ان کے کلام اور نظم و نثر اور ادیبانہ صلاحیتوں کو بنایا جاتا ہے، صحافیوں کو ان کے شعبے کی کاردگی سے پرکھا جاتا ہے اور حکمرانوں کو ان کے طرز حکومت کے اعتبار سے جانچا جاتا ہے، جج کو اس کے کیے ہوئے فیصلوں سے پہچانا جاتا ہے، تو پھر علماء کی باری آنے پر اصول بدل کیوں جاتا ہے؟ تب یہ نعرہ کیوں لگایا جاتا ہے کہ علماء کو سائنس کیوں نہیں آتی اور انہیں سائنس دان بھی ہونا چاہیئے؟ جب تمام شاعر، صحافی، حکمران، جج اور اردو کے پروفیسر بغیر سائنس دان ہونے، بغیر ریاضی دان ہونے اور بغیر کیمیا دان اور بغیر فلکیات دان ہونے کے قابل قبول ہیں، تو ایک عالم دین بھی بغیر سائنس کے یقینا قابل قبول ہے اور عالم کو پرکھنے کا میعار بھی سائنس نہیں، بلکہ اس کے شعبے کے متعلقہ کام یعنی علم دین ہی ہے اور عالم کی صلاحیت میں اس کی عالمانہ و دینی خدمات کو دیکھیں، اس کی قرآن و حدیث پر مہارت اور فقاہت کو دیکھیں، عالم دین کو سائنس ریاضی کے ساتھ نتھی ہرگز نہ کیا جائے۔

   (6) سادساً یہ کہ ہر قوم، ادارے، شعبے میں کام کی تقسیم کاری ہوتی ہے، ہر بندہ ہر کام نہیں کر رہا ہوتا۔ہر ایک کا شعبہ جدا ہے۔ 

   (7) سابعاً یہ کہ اگر بالفرض اس بات کو درست تسلیم کر ہی لیا جائے کہ پہلے کے علماء سائنس دان بھی تھے، تو اس حوالے سے تین باتیں عرض ہیں:

   پہلی یہ کہ یہ سوال کہ پہلے کے علماء سائنس دان تھے، اب کے کیوں نہیں؟ اگر اسی سوال کا الٹ دیا جائے کہ پہلے کے سائنس دان علماء بھی ہوتے تھے، آج کے سائنس دان عالم کیوں نہیں؟ کیونکہ جو بھی گنے چنے چند نام سائنس و علم دین کے حوالے سے ملتے ہیں کہ جو بطور سائنس دان مشہور ہیں اور ساتھ عالم دین بھی تھے، تو اسی حوالے سے یہ بات یوں بھی کی جا سکتی ہے کہ پہلے کے سائنس دان، سائنس کا علم رکھنے کے ساتھ ساتھ دین کا بھی علم رکھتے تھے، مگر اب کیوں نہیں؟  کہ پہلے کے سائنس دان تو دین بھی سیکھا کرتے تھے اور یہ جاننے کی کوشش کرتے کہ اللہ اور اس کے رسول کے کیا احکام ہیں، تو سوال یہ ہے کہ آج کے سائنس دان ایسا کیوں نہیں کرتے اور آج کے سائنس دان علم دین حاصل کر کے علماء کیوں نہیں بنتے؟ اس لئے علماء کو سائنس کی طرف لانے والوں کو یہ کہنا چاہیے کہ سائنسدان علم دین کی طرف آ جائیں تاکہ سائنسدان و عالم دین ہونے کی خوبیاں ایک ہی فرد میں ہوں۔

   اور دوسری یہ ہےکہ یہ بتا دیا جائے کہ دین کا علم آسان ہے یا سائنس کا علم؟ تو جواب آئے گا کہ دین کا علم بہت آسان ہے، سائنس کو سیکھنا بہت مشکل ہے، تو عرض ہے کہ جو شخص آسان چیز(دین کا علم) سیکھا ہوا ہے، اسے یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ مشکل(سائنس) کو بھی سیکھے، لیکن جو مشکل(سائنس) کو سیکھا ہوا ہے، اسے یہ کیوں نہیں کہا جاتا، کہ وہ آسان(دین کا علم) بھی سیکھ لے، جبکہ ہر صاحب عقل جانتا ہے کہ آسان سیکھے ہوئے کے لیے مشکل چیز کو سیکھنا مشکل ہوتا ہے، جبکہ مشکل چیز سیکھے ہوئے کو آسان چیز سیکھنا کوئی مشکل نہیں ہوتا، لہذا سائنس دانوں کو چاہیے کہ وہ دین کا علم بھی حاصل کریں جسے سیکھنا بہت آسان ہے۔

   تیسری یہ ہے کہ یہ کہنا کہ علماء کو سائنس کیوں نہیں آتی؟دراصل اس طرح کے اعتراضات کے پس پردہ احساس کمتری اور مرعوبیت بھی کار فرما ہوتی ہے کہ گویا سائنس معاذ اللہ قرآن و حدیث کے علم سے بھی کوئی افضل و اعلی چیز ہے کہ اگر کوئی دینی علم حاصل کر لے، وہ تب بھی قابل قبول نہیں، جب تک اسے سائنس نہ آتی ہو، لہذا ہمارا سوال یہ ہے کہ بتا دیا جائے کہ کیا سائنس سیکھنا فرض عین ہے؟ تو جواب آئے گا کہ نہیں جبکہ دین سیکھنا تو فرض ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہر مسلمان مرد و عورت پر علم دین سیکھنا فرض ہے، تو جب یہ معلوم ہے کہ سائنس سیکھنا فرض نہیں، اسی لیے کروڑوں اربوں لوگوں نے اسے نہیں سیکھا اور ان پر کوئی الزام بھی نہیں، جیسے اوپر کثیر مثالیں بیان کی ہیں، لیکن اس کے برعکس ہر مسلمان جانتا ہے کہ بقدر حاجت دین کا علم سیکھنا فرض ہے اور یہ دیگر مسلمانوں کی طرح سائنسدانوں کے لئے بھی فرض ہے، تو عرض ہے کہ یہ فرض علماء نے تو پورا کر لیا ہے، لیکن سائنسدانوں نے ابھی یہ فرض پورا نہیں کیا، اس لئے سائنسدانوں کو ترغیب دی جائے کہ وہ بھی علم دین حاصل کر لیں تاکہ ان کے ذمے جو اسلام کا فرض ادا کرنا باقی ہے، وہ اسے پورا کر سکیں۔

   لہذا خلاصہ یہ نکلا کہ پچھلے زمانے کے علماء سائنس دان نہیں تھے، بلکہ بسا اوقات سائنس دان علم دین حاصل کر کے عالم بن جاتے تھے، اس لئے علماء کو سائنس دان بنانے کی کوشش کرنے کی بجائے یہ کوشش کی جائے کہ موجودہ دور کے سائنس دان، عالم دین بھی بن  جائیں اور وہ بھی علم دین حاصل کریں تاکہ اعتراض کرنے والے لوگوں کی دیرینہ خواہش کہ"ایک ہی شخص عالم و سائنس دان ہو"، پوری ہو سکے اور ان سائنسدانوں کی دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت بھی سنور سکے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم