
مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:Fsd-9295
تاریخ اجراء:14 رمضان المبارک 1446 ھ/15 مارچ 2025 ء
دار الافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیافرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ دس سال پہلے حج میں ہم چند افراد مزدلفہ سے رات میں ہی نکل گئے اور فجر کا وقت شروع ہونے سے پہلے ہی شیطان کو کنکریاں بھی ماریں اور پھر حرم شریف طواف کے لئے چلے گئے اور پھر بقیہ معاملات کے بعد احرام کھول دیا، اس وقت مسئلہ کا علم نہیں تھا اور بعد میں یہ کنکریاں دوبارہ بھی نہیں ماریں، تو اب ان سب افراد کے لے کیا حکم ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں مذکورہ افراد کا طلوع فجر سے پہلے ہی مزدلفہ سے چلے جانا اور پھر طلوع فجر سے پہلے ہی رمی کرنا، جائز نہیں تھا، اس پر انہیں توبہ کرنا لازم ہے اور ساتھ ہی ان افراد میں سے ہر ایک فرد پر دو (2) دم دینا بھی لازم ہے، کیونکہ دسویں ذو الحج کی فجر کا وقت ہونے سے لے کر سورج طلوع ہونے تک کم از کم ایک لمحہ کے لئے مزدلفہ میں ہونا واجب ہے اور بلاعذر اس واجب کو تر ک کرنے سے دم لازم ہوجاتا ہے اورپوچھی گئی صورت میں چونکہ یہ افراد فجر کے وقت سے پہلے ہی مزدلفہ سے روانہ ہوگئےتو انہوں نے وقوف مزدلفہ کا واجب ترک کردیا، جس وجہ سے ان پر پہلادم لازم ہوگیا۔
اور اس کے بعد انہوں نے فجر کا وقت شروع ہونے سے پہلے ہی رمی کرلی، جبکہ رمی کا وقت ابھی شروع ہی نہیں ہوا تھا کہ رمی کا وقت طلوع فجر کے بعد سے شروع ہوتاہے، تو اس وجہ سے ان کی رمی صحیح نہیں ہوئی، ان پر فجر کے بعد رمی کرنا بدستور باقی تھا، لیکن اس کے بعد ایام رمی میں رمی کئے بغیر ہی وطن واپس آگئے، تو اس طرح رمی کے ترک ہونے کی وجہ سے ان پر دوسرا دم بھی لازم ہوگیا۔
یا درہے کہ دم کی ادائیگی حرم میں ہی کرنا ضروری ہے، غیر حرم میں نہیں ہوسکتی، البتہ وطن واپس لوٹنے کی صورت میں واپس حرم میں جاکر ہی دم میں قربانی کرنا ضروری نہیں یہ اپنے وطن سے بکری یا اس کی قیمت حرم میں بھیج دیں تا کہ وہاں ان کی طرف سے قربانی کر دی جائے تو اس طرح ان کادم ادا ہوجائے گا۔
مزدلفہ میں دسویں کی فجر کا وقت ہونے سے لے کر سورج طلوع ہونے تک کم از کم ایک لمحہ کے لئے مزدلفہ میں ہونا واجب ہے جیسا کہ فتاوی عالمگیری میں ہے :’’ثم وقت الوقوف فیھا من حین طلوع الفجر الی ان یسفر جدا فاذا طلعت الشمس خرج وقتہ و لو وقف فیھا فی ھذا الوقت او مربھا جاز‘‘ ترجمہ:مزدلفہ میں وقوف کا وقت طلوع فجر سے لے کر دن کے خوب روشن ہونے تک ہے اور جب سورج طلوع ہو جائے گا تو مزدلفہ میں وقوف کا وقت ختم ہوجائے گا اور اگر اس وقت میں مزدلفہ کا وقوف کیا یا یہاں سے گزرا تو یہ جائز ہے۔ (فتاوی عالمگیری، ج 1، ص 230، مطبوعہ المطبعة الكبرى الأميرية)
اور اگر وقوف عرفہ کو ترک کیا تو دم لازم ہوگا جیسا کہ شرح لباب المناسک میں ہے: ”(لو ترک الوقوف بالمزدلفۃ) أی فی فجر یوم النحر (بلا عذر لزمہ دم)“ ترجمہ: اگرقربانی کے دن کی فجر میں مزدلفہ کے وقوف کو بلا عذر ترک کیا تو دم لازم ہوگا۔ (شرح لباب المناسک، فصل فی الجنايات في الوقوف بالمزدلفة، ص 505)
صدر الشریعہ مفتی امجدعلی اعظمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں :”دسویں کی صبح کو مزدلفہ میں بلا عذر وقوف نہ کیا تو دَم دے۔“ (بھار شریعت، حصہ 6، ص 1178، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
دسویں ذو الحج کو حاجی کا طلوع فجر سے پہلے رمی کرنا درست نہیں جیسا کہ رد المحتار اور فتاویٰ عالمگیر ی میں ہے: و اللفظ للثانی ”و لو رمی قبل طلوع الفجر لم یصح اتفاقاً“ ترجمہ: فقہاء کرام کا اتفاق ہے کہ اگر طلوع فجر سے پہلے رمی کر لی تو یہ صحیح نہیں ہے۔ (فتاویٰ عالمگیری، ج 1، ص 233، مطبوعہ المطبعة الكبرى الأميرية)
اگر دسویں ذو الحج کو فجر سے پہلے رمی کرلی تو یہ جائز نہیں، اگر کر لی تو بھی یہ رمی شمار نہیں ہوگی، رمی کے وقت میں دوبارہ رمی کرنا لازم ہوگا اور اگر دوبارہ رمی نہ کی تو دم لازم ہوگا اس بارے میں شرح معانی الاثار میں ہے: ”لا يجوز لأحد أن يرميها قبل طلوع الفجر، و من رماها قبل طلوع الفجر، فهو في حكم من لم يرم، و عليه أن يعيد الرمي في وقت الرمي، فإن لم يفعل، كان عليه لذلك دم“ ترجمہ: طلوع فجر سے پہلے رمی کرنا کسی کے لئے جائز نہیں اور جس نے طلوع فجر سے پہلے رمی کرلی تو یہ رمی نہ کرنے والے ہی کی طرح ہے، اس پر رمی کے وقت میں دوبارہ رمی کرنا لازم ہے اور اگر دوبارہ رمی نہ کی تواس پر دم دینا لازم ہے۔ (شرح معاني الاثار، ج 2، ص 218، مطبوعہ عالم الكتب)
صدر الشریعہ مفتی امجدعلی اعظمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں: ’’کسی دن بھی رَمی نہیں کی یا ایک دن کی بالکل یا اکثر ترک کر دی مثلاً دسویں کو تین کنکریاں تک ماریں یا گیارھویں وغیرہ کو دس کنکریاں تک یا کسی دن کی بالکل یا اکثر رَمی دوسرے دن کی تو ان سب صورتوں میں دَم ہے“ (بھار شریعت، حصہ 6، ص 1178، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
دم کی قربانی کا حرم میں ہونا ضروری ہے جیسا کہ امام اہل سنت امام احمد رضاخان علیہ رحمۃ الرحمٰن ارشاد فرماتے ہیں ’’کفارہ کی قربانی یا قارن ومتمتع کے شکرانہ کی غیر حرم میں نہیں ہوسکتی۔“ (فتاوی رضویہ، ج 10، ص 762، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
صدرالشریعہ بدرالطریقہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی "جو شخص حرم سے واپس لوٹ آیا اور اس پر دم لازم تھا" اس کے بارے میں فرماتے ہیں ’’بکری یا اُس کی قیمت بھیج دے کہ حرم میں ذبح کردی جائے، واپس آنے کی ضرورت نہیں۔ " (بھار شریعت، حصہ 6، ص 1176، مکتبۃ المدینہ کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم