
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
حکومتِ پاکستان کو حج کے لیے معاونین درکار ہیں، اگر کوئی شخص جس پر حج فرض نہ ہو، وہ بطورِ معاون چلا جائے اور حج کر آئے، تو کیا یہ جائز ہےاور اس کا فرض حج ادا ہوجائے گا؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
اگر حکومتی پالیسی کے مطابق جس نے حج نہ کیا ہو وہ بھی معاون بن سکتا ہے جس میں کسی قسم کا دھوکہ، جھوٹ وغیرہ کا عنصر نہ پایا جائے تو اس صورت میں حج پر جانا، جائز ہے اور اگر فرض حج کی نیت سے حج کر لیا تو فرض بھی ادا ہو جاے گا جبکہ اس کو حج بدل کے طور پر نہ بھیجا گیا ہو۔ البتہ اگر حکومتی پالیسی کے مطابق وہی شخص معاون بن سکتا ہو جس نے پہلے سے حج کیا ہو، تو اب ایسی صورت میں بطورِ معاون حج پر جانے کے لئے جھوٹ بولے گا کہ میں نے حج کیا ہوا ہے تو گنہگار ہوگا۔ یونہی ایسے کاغذات میں دستخط کرنا یا خود کو ایسا ظاہر کرنا کہ میں نے حج کیا ہوا ہے، یہ بھی جائز نہیں۔
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا عابد عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: Web-2124
تاریخ اجراء: 01 شعبان المعظم 1446ھ / 31 جنوری 2025ء