
مجیب: ابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-3776
تاریخ اجراء: 01 ذیقعدۃ الحرام 1446 ھ/30 اپریل 2025 ء
دار الافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا احرام کی حالت میں استنجا کرنے کے بعد بغیر خوشبو والے صابن یا لیکوئیڈ سے ہاتھ دھو سکتے ہیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
احرام کی حالت میں بغیر خوشبو والے صابن یا لیکوئیڈ (Liquid) کے ساتھ ہاتھ دھونے سے بھی بچنا چاہیے؛ کیونکہ ان سے میل چھوٹتی ہے جبکہ حاجی کے لیے میل چھڑانا مکروہ تنزیہی ہے، اس لیے کہ حاجی کا پراگندہ بال اور میلا کچیلا ہونا مناسب و محبوب ہے۔ البتہ اگر حالتِ احرام میں ان کا استعمال کر لیا تو مُحرم پر کوئی کفارہ لازم نہیں آئے گا۔
جامع ترمذی، سنن ابن ماجہ، سنن دار قطنی، سنن الکبری للبیہقی وغیرہ میں ہے:
( و اللفظ للاول) ”عن ابن عمر، قال: قام رجل إلى النبي صلى الله عليه و سلم فقال: من الحاج يا رسول الله؟ قال: الشعث التفل“
ترجمہ: حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ و اٰلہ و سلم کی بارگاہ میں کھڑا ہوا اور عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و اٰلہ وسلم! (کامل) حاجی کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا: میلا پراگندہ بال، بُو والا حاجی۔ (جامع ترمذي، أبواب تفسير القرآن، جلد 5، صفحہ 225، حدیث 2998، مطبوعہ مصر)
علامہ زین الدین محمد عبد الرؤوف مناوی رحمۃ اللہ تعالی علیہ (سال وفات: 1031 ھ/1622 ء) اس حدیث پاک کے تحت لکھتے ہیں:
”يعني من هذه صفته فهو الحاج حقيقة الحج المقبول، فاللائق به كونه أشعث أغبر رث الهيئة غير متزين“
ترجمہ: مطلب یہ ہے کہ یہ صفت جس کی ہو، وہی حقیقی طور پر مقبول حج کرنے والا حاجی ہوتا ہے، پس حاجی کے لیے مناسب و موزوں ہے کہ وہ بکھرے بالوں والا، گرد آلود، بوسیدہ حال اور زیب و زینت سے خالی ہو۔ (فيض القدير شرح الجامع الصغير، جلد 3، صفحه 532، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
علامہ ابو سعود سید محمد بن علی ازہری رحمۃ اللہ تعالی علیہ (سال وفات: 1176 ھ/ 1762 ء) لکھتے ہیں:
”و الاغتسال بالماء الحار و أما ازالة الوسخ فمكر وهة، قال في الخزانة: ينبغي للمحرم ان لا يزيل التفث عن نفسه“
ترجمہ: گرم پانی سے غسل کرنا (محرم کے لیے جائز ہے)، اور رہا میل کچیل دور کرنا تو یہ مکروہ ہے۔ الخزانۃ میں فرمایا: محرم کو چاہیے کہ اپنے بدن سے میل کچیل زائل نہ کرے۔ (فتح اللہ المعین علی شرح کنز الدقائق، کتاب الحج، جلد 1، صفحه 472، مطبوعہ مصر)
علامہ امیر کاتب بن امیر عمر اتقانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ (سال وفات: 758 ھ/ 1357 ء) لکھتے ہیں:
”و أجمعوا أنه لو غسله بالحرض أو بالصابون أو بالماء القراح فلا شيء عليه“
ترجمہ: اور اس پر فقہائے کرام کا اجماع ہے کہ اگر محرم نے اپنے ہاتھ وغیرہ کو حُرض (اشنان جس سے کھانے کے بعد ہاتھ دھوتے ہیں)، یا صابن، یا صاف پانی سے دھویا، تو اس پر کوئی کفارہ لازم نہیں ہوتا۔ (غایة البیان، کتاب الحج، باب الاحرام، جلد 3، صفحه 514، دار الضیاء، کویت)
علامہ مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی حنفی رحمۃ اللہ تعالی علیہ (سال وفات: 1174 ھ/ 1761 ء) لکھتے ہیں:
”پس از آنهاست ازالهٔ تفث بعد از احرام، یعنی دور کردن چرک از بدن زیرا نکه مناسب بحال مُحرِم آنست که چرکین و غبارآلودہ باشد، و هم از آنهاست شستن سر و ریش و سائر جسد بعد از تحقق احرام ببرگ درخت کنار یا بصابون یا اشنان“
ترجمہ: محرم کے مکروہ تنزیہی افعال میں سے، احرام کے بعد میل زائل کرنا یعنی جسم سے میل کچیل دور کرنا ہے؛ اس لیے کہ محرم کے لیے یہی حالت مناسب ہے کہ وہ میلا کچیلا اور گرد آلود رہے، اور ان مکروہ تنزیہی افعال میں سے محرم ہو جانے کے بعد سر، داڑھی اور بقیہ جسم کو بیری کے پتوں، صابن یا اشنان سے دھونا ہے۔ (حیاۃ القلوب فی زيارة المحبوب، باب اول در بیان احرام، فصل ھفتم در بیان مکروہات تنزیہیہ احرام، صفحہ 25، مخطوطہ)
امام اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ (سال وفات: 1340 ھ/ 1921 ء) لکھتے ہیں: ”احرام میں یہ باتیں مکروہ ہیں: بدن کا میل چھڑانا، بال یا بدن کھلی یا صابون وغیرہ بے خوشبو کی چیز سے دھونا، کنگھی کرنا۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 10، صفحہ 733، رضا فاؤنڈیشن، لاهور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم