طواف کے بعد دو رکعت فوراََ پڑھنا ضروری ہیں؟

طواف کی دو رکعت فوراً پڑھنا لازم ہیں یا بعد میں بھی پڑھ سکتے ہیں؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ طواف عمرہ مکمل ہوجانے کے بعد جو دو رکعت نماز ادا کی جاتی ہے، اس نماز کو طواف کے فوراََ بعد پڑھنا ضروری ہے یا تاخیر سے بھی پڑھ سکتے ہیں؟ نیز اگر کسی نے طواف کے بعد سعی کرلی پھر حلق کروالیا اور ان دو رکعتوں کو اگلے دن ادا کیا تو کیا اس پر دم لازم ہوگا؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

طواف کے بعد دو رکعت نماز واجب ہے اور اگر مکروہ وقت نہ ہو تو طواف کے فوراً بعد پڑھنا سنت اور اس میں تاخیر کرنا مکروہ ہے، لہٰذا مکروہ وقت نہ ہونے کی صورت میں تاخیر نہیں کرنی چاہئے تاکہ سنت فوت نہ ہو، لیکن اگر کسی نے تاخیر کی اور اس کو اسی دن یا اگلے دن غیر مکروہ وقت میں ادا کیا تو تب بھی دو رکعت ادا ہوجائیں گی اور دم لازم نہیں ہوگا اگرچہ سعی کرنے یا حلق کروانے کے بعد ہی ادا کرے۔

شرح اللباب میں ہے:

(و السنۃ الموالاۃ بینھما و بین الطواف) ای بعد فراغہ ان لم یکن وقت الکراھۃ

ترجمہ: اور طواف کی دو رکعتوں کو طواف کے فوراً بعد ادا کرنا سنت ہے جبکہ مکروہ وقت نہ ہو۔(شرح اللباب، ص 171، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

اسی میں ہے:

(و یکرہ تاخیرھا عن الطواف) لان الموالاۃ بینہ و بینھما سنۃ(الا فی وقت مکروہ)

ترجمہ: اور نماز طواف کو طواف سے مؤخر کرنا مکروہ ہے کیونکہ طواف اور ان دو رکعتوں کے درمیان موالات سنت ہے مگر یہ کہ مکروہ وقت ہو۔ (شرح اللباب، ص 173، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

بحر الرائق اور منحۃ الخالق میں ہے:

(و أما صلاة ركعتي الطواف بعد كل أسبوع فواجبة على الصحيح) أي بعد كل طواف فرضا كان أو واجبا أو سنة أو نفلا و لا يختص جوازها بزمان و لا بمكان و لا تفوت و لو تركها لم تجبر بدم و لو صلاها خارج الحرم و لو بعد الرجوع إلى وطنه جاز و يكره

ترجمہ: اور ہر سات چکر طواف کے بعد طواف کی دو رکعتیں صحیح قول کے مطابق واجب ہیں، یعنی ہر طواف کے بعد چاہے وہ فرض ہو یا واجب، سنت ہو یا نفل، اور اس کا جواز کسی زمانے یا جگہ کے ساتھ خاص نہیں ہے اور یہ نماز فوت نہیں ہوتی(یعنی ذمہ پر لازم رہتی ہے) اور اس کو ترک کردیا جائے تو اس کی تلافی دم سے نہیں ہوتی اور اگر اس نماز کو کسی نے حرم سے باہر ادا کیا اگرچہ اپنے وطن لوٹنے کے بعد تو یہ جائز لیکن مکروہ ہے۔ (البحر الرائق مع منحۃ الخالق، ج 02، ص 356، دار الكتاب الإسلامي)

بہار شریعت میں ہے: ’’سنت یہ ہے کہ وقتِ کراہت نہ ہو تو طواف کے بعد فوراً نماز پڑھے، بیچ میں فاصلہ نہ ہو اور اگر نہ پڑھی تو عمر بھر میں جب پڑھے گا، ادا ہی ہے قضا نہیں مگر بُرا کیا کہ سنت فوت ہوئی۔‘‘ (بہار شریعت، جلد 1، صفحہ 1103، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتویٰ نمبر: HAB-0583

تاریخ اجراء: 01 ذو الحجۃ الحرام 1446ھ / 29 مئی 2025ء