دو قربانیوں میں سے ایک خود رکھنا اور دوسرا صدقہ کرنا

دو قربانیاں کی ہوں تو ایک قربانی کا گوشت صدقہ اور دوسری کا گھر کے لیے رکھنا کیسا؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیافرماتے ہیں علمائےدین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کسی شخص نے دو قربانیاں کی ہوں، ان میں سے ایک قربانی(منت کی قربانی کے علاوہ) واجب قربانی ہواور دوسری قربانی نفلی ہو، تو کیا ایسا شخص یوں کرسکتا ہے کہ وہ اپنے ایک جانور کی قربانی کا سارا گوشت صدقہ کردے اور دوسرے جانور کی قربانی کا سارا گوشت گھر والوں کے لیے رکھ لے؟ براہ کرام اس بارے میں شرعی رہنمائی فرمادیں۔

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

شرعی طور پر قربانی کے گوشت کے تین حصے کرنا مستحب ہے، یعنی ایک حصہ غریب لوگوں کے لئے، ایک حصہ اپنے قریبی رشتہ داروں کے لئے اور ایک حصہ اپنے گھر والوں کے لئے، خواہ وہ قربانی نفلی ہو یا واجب (جبکہ منت کی نہ ہو)، البتہ اگر کسی شخص نے سارا گوشت گھرکے لئے رکھ لیا، یا تمام ہی صدقہ کردیا، تویہ بھی جائز ہے، مگر ایسے شخص کو ثواب کم ملے گا، لہٰذا پوچھی گئی صورت میں مذکورہ شخص کا ایک قربانی کا سارا گوشت صدقہ کرنا اور دوسری قربانی کا سارا گوشت گھر رکھنا جائز ہے، لیکن اس کے لئے بھی مستحب یہی ہے کہ بیان کردہ طریقۂ کار کے مطابق دونوں جانوروں کے گوشت کےتین تین حصےکرے۔

قربانی کے جانور کے گوشت کی تقسیم کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے:

﴿وَ الْبُدْنَ جَعَلْنٰهَا لَكُمْ مِّنْ شَعَآىٕرِ اللّٰهِ لَكُمْ فِیْهَا خَیْرٌ فَاذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلَیْهَا صَوَآفَّۚ- فَاِذَا وَجَبَتْ جُنُوْبُهَا فَكُلُوْا مِنْهَا وَ اَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَ الْمُعْتَرَّ﴾

ترجمہ کنزالعرفان: قربانی کے بڑی جسامت والے جانوروں کو ہم نے تمہارے لیے اللہ کی نشانیوں میں سے بنایا۔ تمہارے لیے ان میں بھلائی ہے، تو ان پر اللہ کا نام لو، اس حال میں کہ ان کا ایک پاؤں بندھا ہوا ہو (اور) تین پاؤں پر کھڑے ہوں، پھر جب ان کے پہلو گرجائیں تو ان (کے گوشت) سے خود کھاؤ اور قناعت کرنے والے اور بھیک مانگنے والے کوبھی کھلاؤ۔(القرآن الکریم، پارہ 17، سورۃ الحج، آیت نمبر 36)

صحیح مسلم میں ہے:

عن ابی سعید الخدری رضی اللہ عنہ قال:قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم: یا اھل المدینۃ! لاتاکلوا لحوم الاضاحی فوق ثلاث، فشکوا الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان لھم عیالاً و حشماً و خدماً، فقال: کلوا و اطعموا وا حسبوا

ترجمہ: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا: اے مدینہ والو! اپنی قربانیوں کا گوشت تین دن سے زیادہ نہ کھاؤ،تو (اہل مدینہ) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بارگاہ میں اپنے اہل و عیال، نوکروں اور خدمت کرنے والوں کے متعلق عرض کی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا: تم(قربانی کا گوشت خود) کھاؤ، اور دوسرے کو بھی کھلاؤ اور اپنے پاس روکے بھی رکھو۔ (صحیح مسلم، جلد 06، صفحہ 81، مطبوعہ دار الطباعۃ العامرۃ، ترکیا)

منت کے ذریعہ سے واجب ہونے والی قربانی کے علاوہ قربانی کے گوشت کے متعلق تنویر الابصار مع در مختار میں ہے:

و یاکل من لحم الاضحیۃ ویؤکل غنیاً ویدخر وندب ان لا ینقص التصدق عن الثلث

ترجمہ: اور (قربانی کرنے والا اپنی)قربانی کے گوشت میں سے کھائے اور غنی شخص کو بھی کھلائے اور ذخیرہ بھی کرے اور مستحب یہ ہے کہ قربانی کرنے والا شخص(گوشت) صدقہ کرنے میں ایک تہائی سے کمی نہ کرے۔ (تنویر الابصار مع در مختار، صفحہ 648، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)

درمختار کی مذکورہ بالا عبارت کے تحت علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالیٰ عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1252ھ / 1836ء) لکھتے ہیں:

ھذا فی الاضحیۃ الواجبۃ و السنۃ سوا ء اذا لم تکن واجبۃ بالنذر

ترجمہ: یہ حکم واجب قربانی اور سنت قربانی کے حق میں برابر ہے، جب تک (واجب قربانی) منت ماننے کے ساتھ واجب نہ ہو۔ (رد المحتار علی در مختار، جلد 09،صفحہ 474،473، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)

بدائع الصنائع، مختصر القدوری، حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، الہدایہ، تبیین الحقائق، الجوہرۃ النیرہ، بنایہ شرح ہدایہ، بحر الرائق شرح کنزالدقائق، نہر الفائق اور فتاوٰی عالمگیری میں ہے:

و اللفظ للآخر: ”و الافضل ان یتصدق بالثلث و یتخذ الثلث ضیافة لاقاربه و اصدقائه و یدخر الثلث و یطعم الغنی و الفقیر جمیعاً۔۔۔۔ و لو تصدق بالكل جاز و لو حبس الكل لنفسه جاز

ترجمہ: اور افضل یہ ہے کہ (قربانی کرنے والا قربانی کے گوشت سے) ایک تہائی صدقہ کرے، ایک تہائی سے اپنے عزیز و اقارب و دوستوں کی مہمان نوازی کرے اور ایک تہائی کو ذخیرہ کرے اور غنی اور فقیر سب کو کھلا سکتا ہے۔۔۔۔ اور اگر تمام گوشت صدقہ کر دیا ، تو بھی جائز ہے اور اگر تمام اپنے لیے روک لیا ، تو بھی جائز ہے۔ (الفتاوٰى الھندیۃ، كتاب الاضحیۃ، جلد 5، صفحہ 300، مطبوعہ دار الفکر، بیروت)

اعلیٰ حضرت، امامِ اہلِ سُنَّت، امام اَحْمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے سوال ہوا کہ اگر کسی شخص نے قربانی کی اور تین حصے نہیں کیے اور سارا گوشت گھر میں رکھ لیا، آیا قربانی درست ہے یا نہیں؟ اس کے جواب میں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں: ”تین حصے کرنا صرف استحبابی امر ہے، کچھ ضروری نہیں، چاہے سب اپنے صرف میں کر لے یا سب عزیزوں قریبوں کو دے دے، یا سب مساکین کو بانٹ دیں۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 20، صفحہ 253، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

قربانی کے گوشت کے تین حصے نہ کرنے والے کو ثواب کم ملے گا، اس کے متعلق فتاوی فیض الرسول میں ہے: ”تین حصے میں گوشت تقسیم کرنے کا حکم استحبابی ہے، یعنی اگر کسی نے قربانی کا گوشت تین حصے میں تقسیم نہ کیا، تو قربانی ہوجائے گی، مگر ثواب کم ملے گا۔“ (فتاوی فیض الرسول، جلد 2، صفحہ 469، مطبوعہ شبیر برادرز، لاھور)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتویٰ نمبر: OKR-0005

تاریخ اجراء: 09 ذو الحجۃ الحرام 1446ھ / 06 جون 2025ء