
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص سیل مین ہے۔ وہ اوکاڑہ سے لاہور کا سفر اس طرح کرتا ہے کہ پہلے رینالہ رکتا ہے، وہاں اس نے اپنا مال ایک دکان پر دینا ہے، پھر اس نے آگے پتو کی جانا ہے اور وہاں بھی اپنا مال اس نے ایک دکان پر دینا ہے، پھر اس سے آگے لاہور جاتا ہے۔ لاہور جاکر وہاں پندرہ دن رہنے کی نیت نہیں ہوتی، بلکہ ایک دو دن میں کام مکمل کرکے واپسی کا ارادہ ہوتا ہے۔ اوکاڑہ سے رینالہ شرعی سفر نہیں ہے، اسی طرح رینالہ سے پتوکی اور پتوکی سے لاہور تک بھی شرعی سفر یعنی 92 کلومیٹر نہیں بنتا، مگر اوکاڑہ سے لاہور کا ٹوٹل سفر 92 کلو میٹر سے زیادہ ہے۔ پوچھنا یہ تھا کہ وہ شخص رینالہ، پتوکی اور لاہور میں اپنی نماز پوری پڑھے گا یا قصر کرے گا؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
قوانین شرعیہ کے مطابق کسی بھی شخص کے شرعی مسافر بننے کے لیے ضروری ہے کہ وہ کم ازکم تین دن کی مسافت یعنی 92 کلو میٹر یا اس سے زائد یکمشت سفر کے ارادے سے اپنی بستی یا شہر سے نکل جائے۔ اگر یکمشت سفر کا ارادہ نہیں ہے، بلکہ سفر کئی حصوں میں تقسیم ہے کہ پہلے ایک جگہ جانا ہے، وہاں کچھ کام ہے وہ نمٹا کر آگے جانا ہے، تو یہ رکنا چاہے کم وقت کے لئےہو یا زیادہ وقت کے لئے، سفر کو منقطع کر دے گا۔ لہذا پوچھی گئی صورت میں مذکورہ شخص رینالہ، پتوکی اور لاہور میں اپنی نماز پوری پڑھے گا، کیونکہ اوکاڑہ سے لاہور اگرچہ شرعی سفر بن جاتا ہے، مگر اس شخص کا یہ سفر متصل نہیں ہے، بلکہ کئی حصوں میں تقسیم ہے، لہٰذا وہ مسافر نہیں ہوگا۔
علامہ ابن نجیم مصری حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 970ھ/1562ء) لکھتے ہیں:
ذکر الاسبیجابی المقیم اذا قصد مصراً من الامصار و ھو ما دون مسیرۃ ثلاثۃ ایام لایکون مسافراً، و لو انہ خرج من ذلک المصر الذی قصد الی مصر آخر و ھو ایضاً اقل من ثلاثۃ ایام فانہ لایکون مسافراً و ان طاف آفاق الدنیا علی ھذا السبیل لایکون مسافراً
ترجمہ: علامہ اسبيجابی رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے کہ مقیم جب کسی شہر کا قصد کرے اور وہ شہر تین دن سے کم فاصلے پر ہو تو یہ مسافر نہیں ہوگا، اور اگر اس مقصود شہر سے (پھرآگے کے لیے) نکلا اور وہ بھی تین دن سے کم فاصلے پر ہے، تو وہ مسافر نہیں ہوگا اگرچہ اس طور پر پوری دنیا گھوم لے۔ (بحر الرائق، جلد 2، صفحہ 228، مطبوعہ کوئٹہ)
قصداً رُکنا یعنی سفر کایکمشت نہ ہونا بلکہ حصوں میں تقسیم ہونا منافی سفر ہے، چنانچہ سیدی اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن لکھتے ہیں:
فأما إذا لم يجتمع مدة سفر أو اجتمعت و لم يكن من قصده أول الخروج إلا بلد دون مدة سفر، ثم حدث القصد إلى آخر فالحكم واضح أيضا (و هو عدم القصر) و كذلك إذا خرج ناويا مدة سفر، وھو المقصودالاصلی و له بعض حاجات في مواضع واقعة في البين، فالحكم ظاهر أيضا و هو القصر، لأن العبرة بأصل المقصود و إنما الاشتباه فيما إذا خرج بمقاصد عديدة كلها مقصود بالذات، و في أقصاها ما هو على مسيرة سفر، و خرج أولا متوجها إلى ما هو دونها، ثم توجه إلى آخر، ثم إلى الأقصى، فهل يعتبر أن من قصده حين الخروج الذهاب إلى ما هو على مسيرة سفر، و إن لم يكن حين خرج متوجها إليه و قاصدا له في الحال، بل قاصدا غيره؟ أم يلاحظ ما هو مقصوده في الحال فيتم، و ظاهر إطلاق "البزازية" و "الفتح" هو الإتمام
یعنی: جب مسافت سفر نہ بنتی ہو یا بنتی ہو مگر اپنے علاقے سے نکلتے وقت مسافت سفر سے کم پر واقع شہر کا ارادہ ہو بعد میں دوسرے شہرجانے کا ارادہ بنے، تو ایسی صورت میں بھی حکم واضح ہے یعنی قصر نہ ہونا۔ ایسے ہی اگر مدت سفر کی نیت سے نکلا مگر درمیان میں کچھ کام کرنےہیں تب بھی حکم واضح ہے کہ قصر نماز پڑھنی ہے، کیونکہ اعتبار اصل مقصود کا ہے، اشتباہ صرف اس صورت میں ہے کہ متعدد مقاصد جو مقصود بالذات ہیں ان کے ارادے سے گھر سے نکلا اور آخری مقصد مدت سفر پر واقع ہے اور پہلے مدت سفر سے کم پر گیا پھر دوسرے مقصد کی طرف متوجہ ہوا ،تو کیا اس کا اعتبار ہوگا کہ نکلتے وقت اس کا ارادہ اس جگہ کا بھی تھا جو مدت سفر پر واقع ہے، اگرچہ نکلتے وقت وہاں نہیں جارہا تھا اور فی الحال وہاں جانے کا ارادہ نہ تھا، بلکہ دوسری جگہ کا ارادہ تھا یا فی الحال جو مقصود ہے وہاں کا لحاظ کرتے ہوئے پوری نماز کا حکم دیں گے۔ بزازیہ اور فتح القدیر کے اطلاق سے ظاہر پوری نماز پڑھنا ہے۔ (جد الممتار، جلد 03، صفحہ 575، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)
فتاوی رضویہ میں ہے: ”جو مقیم ہو اور وہ دس دس پانچ پانچ بیس بیس تیس تیس کو س کے ارادے پر جائے کبھی مسافر نہ ہوگا ہمیشہ پوری نماز پڑھے گا اگر چہ اس طرح دنیا بھر کا گشت کر آئے جب تک ایک نیت سے پورے چھتیس کوس یعنی ساڑھے ستاون میل انگریزی کے ارادے سے نہ چلے یعنی نہ بیچ میں کہیں ٹھہرنے کی نیت ہو اور اگر دوسو میل کے ارادے پر چلا مگر ٹکڑے کرکے یعنی بیس میل جاکر یہ کام کروں گا وہاں سے تیس میل جاؤں گا وہاں سے پچیس میل، و علی ہذا لقیاس مجموعہ دو سومیل تو وہ مسافر نہ ہوا کہ ایک لخت ارادہ ۵۷ میل کا نہ ہوا، ہاں جو مسافر ہے مقیم نہیں وہ جہاں ہے وہاں بھی قصر پڑھے گا اور وہاں سے ایک ہی میل یا کم کو جائے خواہ زیادہ کو، وہاں بھی قصر ہی کرے گا جب پورے پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت کسی محل اقامت میں نہ کرے۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 08، صفحہ 268، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتویٰ نمبر: OKR- 0003
تاریخ اجراء: 07 ذوالحجہ 1446ھ / 04 جون 2025 ء