آخری قعدے کے بعد بھول کر اٹھنے پر سجدہ سہو کا حکم

آخری قعدے کے بعد بھول کر کھڑے ہو گئے، تو سجدہ سہو کرنے کا طریقہ

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کےبارے میں کہ امام چار رکعتی نماز میں قعدہ اخیرہ میں التحیات پڑھ کر بھولے سے پانچویں رکعت کے لیے کھڑا ہوجائے اور ابھی تلاوت شروع کی ہو کہ یاد آتے ہی فوراً واپس لوٹ جائے، تو اب سجدۂ سہو کس طرح کرے، کیا بیٹھ کر دوبارہ التحیات پڑھے پھر سجدۂ سہو کرے یا بیٹھ کر التحیات نہ پڑھے، بلکہ سجدۂ سہو کرکےپھر التحیات پڑھے اور نماز مکمل کرے، صحیح طریقہ کیا ہے؟ جواب ارشاد فرمائیں۔

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

قعدۂ اخیرہ کے بعد بھولے سے کھڑے ہو جانے پر جب تک اگلی رکعت کا سجدہ نہ کیا ہو، نمازی پر واجب ہوتا ہے کہ لوٹ آئے اور تشہد کا اعادہ کیے بغیر ایک طرف سلام پھیر کر سجدۂ سہو کرے اور اس کے بعد دوبارہ التحیات پڑھ کر نماز مکمل کر لے، یہاں سجدۂ سہو واجب ہونے کی وجہواجب کو اس کے محل سے مؤخر کرنا ہے، یعنی قعدۂ اخیرہ میں تشہد، درود شریف اور دعائے ماثورہ کے بعد بغیر کسی اجنبی فاصل کے سلام پھیرنا واجب ہوتا ہے اور التحیات پڑھنے کے بعد قیام کرنا اجنبی فاصل اور سلام کے واجب میں تاخیر کا سبب ہے، لہٰذا بھولے سے کھڑے ہونے کی وجہ سے سجدۂ سہو واجب ہوجاتا ہے۔

اس تفصیل کے بعد پوچھی گئی صورت کا متعین جواب یہ ہے کہ جب امام قعدہ اخیرہ میں تشہد پڑھنے کے بعد بھولے سے کھڑا ہو جائے، تو اس رکعت کا سجدہ کرنے سے پہلے یاد آتے ہی بیٹھ جائے، بیٹھتے ہی ایک طرف سلام پھیر کر سجدۂ سہو کرے، اس کے بعد حسبِ معمول التحیات اور درود پاک وغیرہ پڑھ کر نماز مکمل کرلے۔ بیٹھنے کے بعد سجدۂ سہو کا سلام پھیرنے سے پہلے تشہد نہیں پڑھے گا کہ محض زائد قیام،پہلے تشہد کو ختم نہیں کرتا، البتہ سجدۂ سہو کے بعد دوبارہ التحیات پڑھنا واجب و ضروری ہے کہ سجدۂ سہو، پہلے پڑھے گئے تشہد یعنی التحیات کو ختم کر دیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی جان بوجھ کر سجدۂ سہو کرنے کے بعد التحیات نہ پڑھے، تو اس پر نماز کا اعادہ واجب ہے۔

تشہد کے بعد کسی اجنبی فاصل سے سلام میں تاخیر، ترک واجب کا سبب ہے، چنانچہ علامہ محمد عابد سندھی انصاری رَحْمَۃُاللہ تَعَالیٰ عَلَیْہِ (سال وفات: 1257ھ/1841ء) طوالع الانوار میں لکھتے ہیں:

(بتاخیر السلام) الذی ھو واجب عن محلہ و کان ذلک عقیب فراغہ من التشھد و الصلاۃ و الادعیۃ فحیث تخلل القیام

ترجمہ: سلام میں تاخیر یعنی واجب کو اپنے محل سے مؤخرکرنے کے سبب (سجدۂ سہو لازم ہوتا ہے )اور سلام کا محل قعدہ اخیرہ میں تشہد،درود اور دعاؤں سے فارغ ہونے کے فوراً بعد ہے، تو یہاں قیام مخل ہو گیا۔ (طوالع الانوار علی الدر المختار، جلد 2، حصہ 2، صفحہ 379، مخطوطہ غیر مطبوعہ)

قعدۂ اخیرہ میں تشہدکے بعد بھولے سے محض کھڑا ہونا ہی اجنبی فاصل ہے، جس سے سجدۂ سہو لازم ہو جائے گا، علامہ سدید الدین محمد بن محمد کاشْغَری حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالیٰ عَلَیْہِ (سالِ وفات:860ھ/1455ء) لکھتے ہیں:

و لو قام الی الخامسۃ… یجب بمجرد القیام‘‘

ترجمہ: اگر نمازی (بھول کر )پانچویں رکعت کے لیے کھڑا ہو جائے، تو اُس پرمحض قیام کرنے سے سجدۂ سہو لاز م ہو جائے گا۔ (منیۃ المصلی، فصل فی سجود السھو، صفحہ 430، مطبوعہ ضیاء القرآن پبلی کیشنز)

اس مسئلہ کو قدرے تفصیل اور علت کے ساتھ بیان کرتے ہوئے علامہ محمد بن ابراہیم حلبی رَحْمَۃُاللہ تَعَالیٰ عَلَیْہِ (سالِ وفات: 956 ھ/ 1049 ء) لکھتےہیں:

’’(ولو قام )فی الصلوۃ الرباعیۃ (الی )الرکعۃ (الخامسۃ) … (یجب) علیہ سجود السھو (بمجرد القیام) … لتاخیر الواجب و ھو التشھد او السلام

یعنی: اور اگر چار رکعتی نماز میں نمازی پانچویں کے لیے کھڑا ہوگیا، تو تشہد یا سلام کے واجب میں تاخیر کی وجہ سے اس پر صرف کھڑے ہونے سے ہی سجدۂ سہو لازم ہوجائے گا۔ (حلبی صغیر، فی سجود السھو، صفحہ 209، مطبوعہ دار سعادات)

اور پانچویں رکعت کے قیام سے لوٹ کر بیٹھتے ہی دوبارہ التحیات نہیں پڑھے گا، چنانچہ تنویر الابصار و در مختار میں ہے:

’’(و إن قعد في الرابعة)مثلا قدر التشهد(ثم قام عاد)

ترجمہ: اگرچوتھی رکعت میں بقدرِ تشہد قعدہ کیا، پھر (سلام پھیرنے سے پہلے)کھڑا ہوگیا، تو (جب تک اگلی رکعت کا سجدہ نہ کیا ہو) لوٹ آئے۔

تنویر الابصار کی مذکورہ بالا عبارت کے تحت علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالیٰ عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1252 ھ / 1836 ء) لکھتے ہیں:

أي: عاد للجلوس و فيه إشارة إلى أنه لا يعيد التشهد، و به صرح في البحر

ترجمہ: یعنی بیٹھنے کے لیے واپس لوٹے۔۔۔ اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ تشہد دوبارہ نہیں پڑھے گا، اسی کی بحر الرائق میں صراحت کی گئی۔ (رد المحتار مع الدر المختار، کتاب الصلاۃ، جلد 2، صفحہ 667، مطبوعہ کوئٹہ)

یونہی حاشیۃ الطحطاوی میں ہے:

ثم اذا اعاد لا یعید التشھد‘‘

مفہوم واضح۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختار، جلد 1، صفحہ 314، مطبوعہ کوئٹہ)

اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالیٰ عَلَیْہِ (سالِ وفات : 1340 ھ/1921 ء) جد الممتار میں عدمِ اعادۂ تشہد کی علت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

(عاد)من دون تشهد، لأن القيام الزائد لا يرفع التشهد الصحيح

یعنی: واپس لوٹے گا اور تشہد نہیں پڑھے گا، کیونکہ زائد قیام صحیح تشہد کو ختم نہیں کرتا۔ (جد الممتار، جلد 3، صفحہ 540، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)

سجدۂ سہو کے لیے ایک طرف سلام پھیر کر دو سجدے کرے گا پھر دوبارہ تشہد پڑھ کر سلام پھیرے گا، چنانچہ سجدۂ سہو کے طریقے کے متعلق فتاوی عالمگیری میں ہے:

و كيفيته أن يكبر بعد سلامه الأول و يخر ساجدا و يسبح في سجوده ثم يفعل ثانيا كذلك ثم يتشهد ثانيا ثم يسلم

ترجمہ: سجدہ سہو کا طریقہ یہ ہے کہ ایک طرف سلام پھیرنے کے بعد تکبیر کہتا ہوا سجدے میں جائے اور سجدے کی تسبیح پڑھے، پھر یونہی دوسرا سجدے کرے پھر دوبارہ تشہد پڑھ کر سلام پھیرے۔ (الفتاوی الھندیۃ، جلد 1، صفحہ 125، مطبوعہ کوئٹہ)

سجدۂ سہو کے بعددوبارہ التحیات پڑھنا اس لیے واجب ہے کہ سجدۂ سہو سے پہلے تشہد ختم ہوجاتا ہے، جیساکہ تنویر الابصار و در مختار میں ہے:

’’(یجب لہ بعد سلام واحد سجدتان و) یجب ایضاً (تشھد و سلام) لان سجود السھو یرفع التشھد (و فی رد المحتار) ای: قراءتہ، حتی لو سلم بمجرد رفعہ من سجدتی السھو صحت صلاتہ و یکون تارکا للواجب دون القعدۃ لقوتھا ای:لانھا اقوی منہ لکونھا فرضا‘‘

یعنی: اور (سجدۂ سہو میں ایک طرف) سلام کے بعد دو سجدے اور اس کے بعد تشہد اور سلام واجب ہے، کیونکہ سجدۂ سہو پہلے پڑھے گئے تشہد کو ساقط کر دیتا ہے، حتی کہ اگر کسی نے سجدۂ سہو سے سر اٹھاتے ہی سلام پھیر دیا، تو اس کی نماز ادا ہوجائے گی، مگر وہ واجب کا تارک ہو گا۔ قعدۂ اخیرہ کو باطل نہیں کرتا، کیونکہ قعدۂ اخیرہ فرض ہونے کی وجہ سے قوی ہے۔ (تنویر الابصار و الدرالمختار، جلد 2، صفحہ 651 - 653، مطبوعہ کوئٹہ)

اور سجدہ سہو کے بعد قصداً ترکِ تشہد کی صورت میں نماز ہو جائے گی، مگر اعادہ پھر بھی لازم ہوگا، چنانچہ صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالیٰ عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1367 ھ/ 1947 ء) لکھتے ہیں:سجدۂ سہو کے بعد بھی التحیات پڑھنا واجب ہے التحیات پڑھ کر سلام پھیرے اور بہتر یہ ہے کہ دونوں قعدوں میں درود شریف بھی پڑھے…… سجدۂ سہو سے وہ پہلا قعدہ(یعنی التحیات میں بیٹھنا)باطل نہ ہوا، مگر پھر قعدہ کرنا (یعنی التحیات پڑھنا) واجب ہے اور اگر نماز کا کوئی سجدہ باقی رہ گیا تھا قعدہ کے بعد اس کو کیا یا سجدۂ تلاوت کیا تو وہ قعدہ جاتا رہا۔ اب پھر قعدہ فرض ہے کہ بغیر قعدہ نماز ختم کر دی تو نہ ہوئی اور پہلی صورت میں ہو جائے گی مگر واجب الاعادہ۔ (بھارِ شریعت، جلد 1، حصہ 4، صفحہ 710، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)

بہارشریعت کے اس جزئیے میں جو کہا گیا کہ سجدۂ سہو سے وہ پہلا قعدہ باطل نہ ہوااس سے مراد اصل ِفرض یعنی قعدہ اخیرہ میں بقدرِتشہد بیٹھنا ہے، جس کا حاصل یہ ہو گاکہ اگر کوئی شخص قصداًسجدہ سہو کے بعدنہ قعدہ کرے، نہ تشہد پڑھے، تو فرض ادا ہوجائے گاکہ پہلا قعدہ باطل نہیں ہواتھا، البتہ نماز واجب الاعادہ رہے گی، کہ تشہد یعنی پہلے پڑھی گئی التحیات ساقط ہو گئی تھی اور دوبارہ پڑھنی واجب تھی، بہار شریعت کی اس عبارت پھر قعدہ کرناواجب ہے سے یہی مراد ہے، جیساکہ اس کی صراحت اوپر شامی کے جزئیے میں موجود ہے۔

مزید اس کی تائید در مختار و رد المحتار کے ایک اور جزئیہ سے بھی ہوتی ہے جو اس سے بھی زیادہ صراحت اور علل کے ساتھ ذکر ہوا ہے، چنانچہ در مختار و رد المحتار میں ہے،

و بین القوسین عبارۃ رد المحتار:اما السھویۃ فترفع التشھد لا القعدۃ (ای:تبطلہ، لانہ واجب مثلھا فتجب اعادتہ، و انما لاترفع القعدۃ لانھا رکن فھی اقوی منھا) حتی لو سلم بمجرد رفعہ منھا لم تفسد (ای: من السھویۃ بلا قعود و لا تشھد لم تفسد صلاتہ لان القعدۃ الرکن لم ترتفع فلا تفسد صلاتہ بترک التشھد الواجب)‘‘

ترجمہ: بہر حال سجدہ سہو تشہد یعنی التحیات کو ساقط کردیتا ہے، کیونکہ تشہد، سجدہ سہو کی طرح واجب ہے، لہٰذا اس کو دوبارہ پڑھنا واجب ہوگا۔ قعدہ کو اس لیے باطل نہیں کرتا، کیونکہ وہ رکن ہے اور رکن، واجب سے قوی ہوتا ہے، اس لیے اگر نمازی نے سجدہ سہو سے اٹھتے ہی بغیر قعدہ کیے اور بغیر تشہد پڑھے سلام پھیر  دیا، تو نماز فاسد نہیں ہوگی، کیونکہ قعدہ رکن ہے اور وہ ساقط نہیں ہوا تھا، لہٰذا واجب تشہد کو ترک کرنے کی وجہ سے نماز فاسد نہیں ہوگی۔ملخصاً (الدر المختار مع رد المحتار، باب صفۃ الصلاۃ، جلد 2، صفحہ 193، مطبوعہ کوئٹہ)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: Fsd-9248

تاریخ اجراء: 23 رجب المرجب 1446 ھ/ 24جنوری 2025 ء