Alim Ka Ghair Alim Ke Peeche Namaz Parhne Ka Hukum

 

عالم کا غیر عالم کے پیچھے نماز پڑھنے کا حکم

مجیب:مولانا اعظم عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3383

تاریخ اجراء: 18جمادی الاخریٰ 1446ھ/21دسمبر2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   ایک عالم دین کا غیر عالم امام  کے پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے؟ اورکیا  عالم کی نماز ہو جائے گی؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اگر عالم دین کسی  لائق امامت غیر عالم شخص کے پیچھے  نماز پڑھےاوروہ درست نمازپڑھائے تو اس کی نماز ہوجائے گی ۔ البتہ! جس جگہ کوئی امام مقرر نہ ہو تو وہاں غیر عالم کی بہ  نسبت عالم کا امام بننا زیادہ بہتر ہے اور جہاں   ایسا شخص امام مقرر ہو، جس  میں امامت کی شرائط پوری ہوں تو وہاں مقررہ امام ہی نماز پڑھائے  گا ۔

   فتاوی رضویہ میں ہے’’امامت کیلئے صحیح الاسلام،صحیح الطہارت ،صحیح القراء ت ،سنی صحیح العقیدہ غیر فاسق معلن درکارہے، جس میں ان باتوں سے کوئی بات کم ہوگی اسکے پیچھے نماز ہوگی ہی نہیں،مکروہ تحریمی ہوگی۔اس شخص میں ان باتوں سے کوئی بات کم ہے تو اس کی امامت جائزنہیں،واجب ہے  کہ دوسرے کو جو ان باتوں کا جامع ہو امام کریں اور یہ سب باتیں اس میں ہیں تو اس کی امامت میں حرج نہیں ، پھر دوسرا اگر نماز وطہارت کے مسائل اس سے زیادہ جانتا ہے تو وہ دوسرا ہی اولی ہے اور اگر یہ زیادہ جانتا ہے تو یہی بہتر ۔‘‘(فتاوی رضویہ،ج 6،ص 574 ،رضافاؤنڈیشن،لاہور)

   فتاوی امجدیہ میں ہے ’’عالم کوامامت میں حافظ پرترجیح ہے ،تمام کتب فقہ میں تصریح ہے کہ عالم احق بالامامت ہے۔ “(فتاوی امجدیہ،ج 1،حصہ اول،ص 155،مکتبہ رضویہ،کراچی(

   در مختار میں ہے” (و) اعلم أن (صاحب البيت) ومثله إمام المسجد الراتب (أولى بالإمامة من غيره) مطلقا “ ترجمہ : جان لو کہ صاحبِ بیت اور اسی کی مثل مسجد کا مقررہ امام دوسروں کی بنسبت مطلقاً امامت کے زیادہ حقدار ہیں۔

   اس کے تحت رد المحتار میں ہے” (قوله :مطلقا) أي وإن كان غيره من الحاضرين من هو أعلم وأقرأ منه“ترجمہ:(مصنف کا قول:مطلقاً)یعنی اگرچہ حاضرین میں اس سے زیادہ علم والے اور اچھی قراءت والے موجود ہوں۔(رد المحتار علی الدر المختار،ج 1،ص 559،دار الفکر،بیروت)

   مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ  نے  مرأۃ المناجیح میں  ایک مقام پر لکھا ہے :” جہاں امام مسجد مقرر ہو وہاں وہی نماز پڑھائے گا اگرچہ اس سے بڑا عالم یا قاری موجود ہو،معلوم ہوا کہ گزشتہ ترتیب وہاں کے لیے تھی جہاں امام پہلے سے مقرر نہ ہو، ہاں مقررہ امام کی اجازت سے دوسرا نماز پڑھا سکتا ہے۔ “(مرآۃا لمناجیح ،ج 2،ص 197 ،نعیمی کتب خانہ ،گجرات)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم