
مجیب:مولانا محمد شفیق عطاری مدنی
فتوی نمبر:WAT-3579
تاریخ اجراء:14 شعبان المعظم 1446 ھ/ 13 فروری 2025 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
انڈے اور پیاز کا تیل لگا کر نماز پڑھنے کا کیا حکم ہوگا؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
انڈے اور پیاز کے تیل میں بدبو ہوتی ہے،اس کے لگے ہونے کی حالت میں جب تک بوختم نہ ہونمازمکروہ اور مسجد میں جاناحرام، جیسے حقے کے پانی سے وضوکاحکم ہے۔ مسجد کو بدبو سے بچانے کے متعلق سنن نسائی میں حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ حضورصلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”من اكل من هذه الشجرة، قال اول يوم: الثوم، ثم قال: الثوم و البصل والكراث فلا يقربنا في مساجدنا، فان الملائكة تتاذى مما يتاذى منه الانس“ ترجمہ: جو اس درخت سے کھائے(پہلے دن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے لہسن کا فرمایا، پھر لہسن، پیاز اور گندنا یعنی لہسن کےمشابہ ایک بو والی سبزی کا فرمایا) تووہ ہماری مسجد کے قریب نہ آئے، کیونکہ انسان جس چیز سے تکلیف محسوس کرتے ہیں، فرشتے بھی اس سے تکلیف محسوس کرتے ہیں۔(سنن نسائی، کتاب المساجد، ج 2، ص 43، المطبوعات الإسلامية حلب)
ملا علی قاری رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں: ”قلت: العلة اذى الملائكة و اذى المسلمين و يلحق بما نص عليه في الحديث كل ما له رائحة كريهة من الماكولات و غيرها، و انما خص الثوم هنا بالذكر، و في غيره ايضا بالبصل و الكراث لكثرة اكلهم بها“ ترجمہ: میں کہتا ہوں کہ اس ممانعت کی علت ملائکہ اور مسلمانوں کوایذا دینا ہے، اور حدیث میں جن چیزوں پر صراحت کی گئی ہے، ان کے ساتھ کھانے والی اور نہ کھانے والی ہر اس چیز کو لاحق کیا جائے گا، جو بدبودار ہو اور یہاں خاص طور پر لہسن اور دیگر احادیث میں پیاز اور گندناکو بھی ذکر کیا گیا ہے، کیونکہ ان چیزوں کو کثرت سے کھایا جاتاہے۔(ورنہ ممانعت ہر بدبو والی چیزکے ساتھ خاص ہے۔)(عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری، ج 6، ص 146، دار إحياء التراث العربي، بيروت)
فتاوی رضویہ میں امام اہلسنت رحمۃ اللہ تعالی علیہ ارشاد فرماتے ہیں: مسجد کوبو سے بچانا واجب ہے، و لہذا مسجد میں مٹی کا تیل جلانا حرام، مسجد میں دیا سلائی سلگانا حرام، حتی کہ حدیث میں ارشاد ہوا: ’’و ان یمر فیہ بلحم نیئ‘‘ یعنی مسجد میں کچا گوشت لے جانا، جائز نہیں، حالانکہ کچے گوشت کی بوبہت خفیف ہے، تو جہاں سے مسجد میں بو پہنچے وہاں تک ممانعت کی جائے گی۔ یہ خیال نہ کرو کہ اگر مسجد خالی ہے، تو اس میں کسی بو کا داخل کرنا اس وقت جائز ہو کہ کوئی آدمی نہیں جواس سے ایذا پائے گا، ایسا نہیں، بلکہ ملائکہ بھی ایذا پاتے ہیں، اس سے جس سے ایذاپاتا ہے انسان۔ مسجد کو نجاست سے بچانا فرض ہے۔(فتاوی رضویہ، جلد 16، صفحہ 232 ،233، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
بہارشریعت میں امام اہلسنت علیہ الرحمۃ کی تقریظ میں حقے کے پانی کے متعلق یہ الفاظ موجودہیں :"بحال بدبوطہارت میں اس کااستعمال ممنوع اورجب تک بوزائل نہ ہونمازمکروہ اورمسجدمیں جانا حرام۔"(بہار شریعت، ج 01، حصہ 02، ص 430، مکتبۃ المدینہ)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم