اپنے گاؤں جانے کے بعد پندرہ دن سے کم رہنا ہو، تو نمازوں کا حکم؟

اپنے گاؤں جانے کے بعد پندرہ دن سے کم رہنا ہو، تو نمازوں کا حکم؟

دار الافتاء اہلسنت(دعوت اسلامی)

سوال

میں دادو گاؤں میں پیدا ہوا تھا لیکن اب 14 سال سے کوٹری میں رہائش گاہ ہے تو کیا میں جب گاؤں 15 دن سے کم رہنے جاؤں گا تو مجھے قصر نماز پڑھنی ہوگی یا پوری 4 رکعتیں جبکہ کوٹری اور دادو کے درمیان 150 کلومیٹر سے زائد کی مسافت ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں اگر آپ نے دادو گاؤں چھوڑنے اور اسے دوبارہ وطن نہ بنانے کا پختہ عزم نہیں کیا ہے  نہ ہی آپ مستقل طور پر کوٹری شفٹ ہوئے ہیں  تو دادو گاؤں   داخل ہوتے ہی  آپ مقیم ہوجائیں گے اور یہاں جتنے بھی دن  قیام  کریں گے  پوری نماز ادا کریں گے۔

اگر دادو گاؤں  چھوڑدیا ہے   اور اسے دوبارہ وطن نہ بنانے کا عزم مصمم کرکے اپنے اہل و عیال کو لے کر مستقل طور پر کوٹری  شفٹ ہوگئے ہیں تو اب دادو گاؤں   آپ کے لئے وطن اصلی نہ  رہا، اس صورت میں جب بھی یہاں 15 دن سے کم  ٹھہرنے کی نیت  سے آئیں گے  تو قصر نماز ہی پڑھیں گے۔

فتاویٰ عالمگیری اورتبیین الحقائق وغیرہ میں ہے:

”و یبطل الوطن الأصلی بمثلہ أی بالوطن الأصلی لما ذکرنا، و لھذا عد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نفسہ بمکۃ مسافرا حیث قال فإنا قوم سفر ھذا إذا انتقل عن الأول بأھلہ و أما إذا لم ینتقل بأھلہ و لکنہ استحدث أھلا ببلدۃ أخری فلا یبطل وطنہ الأول و یتم فیھما“

ترجمہ: وطن اصلی اپنی مثل یعنی دوسرے وطن اصلی کے ذریعے باطل ہو جاتا ہے اس وجہ سے جو ہم نے پہلے بیان کی، اسی لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے آپ کو مکہ میں مسافر شمار کیا اور فرمایا: ہم یہاں مسافر ہیں۔ اور یہ اس قت ہے، جبکہ اپنے اہل و عیال کو لے کر دوسری جگہ منتقل ہو گیاہو۔ اور اگر وہ اپنے اہل و عیال کو لے کر دوسری جگہ منتقل نہیں ہوا، بلکہ کسی دوسرے شہر میں بھی اپنے نئے اہل بنا لیے (یعنی دوسرے شہر میں شادی کر لی)، تو اب اس کا پہلا وطن باطل نہیں ہوگا،بلکہ وہ دونوں جگہ پوری نماز پڑھے گا۔ (تبیین الحقائق، جلد 1، صفحہ 517، مطبوعہ مکتبہ محمدیہ آباسین روڈ چمن(

درمختار وردالمحتار میں ہے:

”یبطل بمثلہ إذا لم یبق لہ بالأول أھل( أی و إن بقی لہ فیہ عقار قال فی النھر: و لو نقل أھلہ ومتاعہ و لہ دور فی البلد لا تبقی وطنا لہ وقیل تبقی کذا فی المحیط وغیرہ) فلو بقی لم یبطل بل یتم فیھما‘‘ و العبارۃ بین الھلالین من ردالمحتار“

ترجمہ: وطنِ اصلی اپنی مثل کے ساتھ باطل ہو جاتا ہے، جبکہ پہلی جگہ پر اس کے اہل باقی نہ رہیں یعنی اگرچہ زمین وغیرہ ہو، صاحب نہر لکھتے ہیں: ’’اگر کسی نے اپنے اہل و سامان کو دوسری جگہ شفٹ کر دیا، لیکن اس کا گھر وغیرہ پہلے شہر میں باقی ہے، تب بھی پہلا شہر اس کا وطن اصلی نہیں رہے گا اور ایک قول یہ ہے کہ ایسی صورت میں پہلا شہر وطنِ اصلی باقی رہے گا۔ جیسا کہ محیط وغیرہ میں ہے۔‘‘ اور اگر کوئی دوسری جگہ منتقل ہوا اور اس کے اہل پہلی جگہ پر باقی ہیں، تو اب وطنِ اصلی باطل نہ ہوگا، بلکہ دونوں جگہ پوری نماز پڑھنی ہوگی۔) در مختار مع رد المحتار، جلد 2، صفحہ 739، مطبوعہ کوئٹہ(

امام اہلسنت امام احمدرضاخان علیہ رحمۃ الرحمن فتاویٰ شامی کے حاشیہ جدالممتارمیں ارشاد فرماتے ہیں:

”اقول: یظھر للعبد الضعیف انّ نقل الاھل والمتاع یکون علی وجھین: احدھما:ان ینقل علی عزم ترک التوطّن ھاھنا، والآخر:لا علی ذلک، فعلی الاوّل لا یبقی الوطن وطناً وان بقی لہ فیہ دُور وعقار، وعلی الثانی یبقی فلیکن المحمل للقولین، وبمثل ھذا یجری الکلام فی موت الزوجۃ، فافھم،واللہ تعالی اعلم‘‘

ترجمہ:میں کہتاہوں:’’جوعبدضعیف پر ظاہرہواوہ یہ ہے کہ اپنے اہل و سامان کا منتقل کرنا دو طرح سے ہوتا ہے۔ ایک تو یہ ہے کہ اس طرح منتقل ہو کہ اب آئندہ اس جگہ کو دوبارہ وطن نہ بنانے کا پکا ارادہ کر چکا ہے اور دوسرا یہ کہ اس طرح کا عزم نہیں ہے۔ تو پہلی صورت میں وہ جگہ وطن اصلی باقی نہیں رہے گی اگرچہ وہاں گھر و زمین موجود ہو اور  دوسری صورت میں وہ جگہ وطن باقی رہے گی پس چاہئے کہ ان دونوں قولوں کایہی محمل ہو اوراسی کی مثل کلام زوجہ کی موت کے بارے میں بھی جاری ہوگا، فافھم، واللہ تعالیٰ اعلم۔ (جد الممتار علی ردالمحتار ، جلد3، صفحہ 572، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی(

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا جمیل احمد غوری عطاری مدنی

فتوی نمبر: Web-2096

تاریخ اجراء: 24 جمادی الاخریٰ 1446 ھ/ 27 دسمبر 2024 ء