
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس کے بارے میں کہ مجھے افریقہ میں 3 سال کا ویزہ ملا ہوا ہے جو کہ ورک پرمٹ ہے، کیا میں یہاں پر وطن اصلی کی نیت کر سکتا ہوں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
وطن اصلی وہ جگہ ہے جہاں پیدائش ہوئی ہو یا وہاں شادی کر لی ہو یا وہاں مستقل رہائش اختیار کر لی ہو اور وہاں سے جانے کا ارادہ نہ ہو۔ محض نوکری و کاروبار کے لیے کسی جگہ جا کر ٹھہرنے سے وہ جگہ وطن اصلی نہیں بنتی اگرچہ زیادہ عرصہ ٹھہرنا ہو۔ صورت مسئولہ میں چونکہ آپ کو تین سال کا ورک پرمٹ ویزہ ملا ہوا ہے اور آپ کا وہاں مستقل رہنے کا ارادہ نہیں، لہذا آپ وہاں پر وطن اصلی کی نیت نہیں کر سکتے۔ بلکہ اگر آپ کی کسی ایک شہر میں پندرہ یا پندرہ سے زائد دن رکنے کی نیت ہے تو وہ آپ کا وطن اقامت ہو گا اور آپ وہاں مقیم ہوں گے اور وہاں پوری نماز پڑھیں گے۔ اور اگر وہاں سے کہیں شرعی مسافت پر جائیں گے یا کسی اور جگہ پندرہ دن اقامت کی نیت سے جائیں گے تو پہلا وطن اقامت باطل ہو جائے گا، اور واپس وہاں آنے کی صورت میں مقیم ہونے کے لیے دوبارہ پندرہ دن رکنے کی نیت ضروری ہو گی۔ اور اگر کسی ایک جگہ پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت نہ ہو تو آپ مسافر ہوں گے اور قصر نماز پڑھیں گے۔
الدر المختار مع رد المحتار میں ہے
(الوطن الاصلی ھو موطن ولادتہ او تاھّلہ) ای تزوجہ (او توطنہ) ای عزم علی القرار فیہ و عدم الارتحال۔۔۔ (و یبطل وطن الاقامۃ بمثلہ و بالوطن الاصلی و بانشاء السفر)
ترجمہ: وطن اصلی وہ جگہ ہے جہاں اس کی پیدائش ہوئی ہو یا اس نے وہاں شادی کر لی ہویا اسے اپنا وطن بنا لیا ہو، یعنی اب وہاں ہمیشہ رہنے اور اس جگہ کو نہ چھوڑنے کا ارادہ کر لیاہو۔۔۔ اور وطن اقامت اپنے مثل یعنی وطن اقامت اور وطن اصلی اور سفر شروع کرنے سے باطل ہو جاتا ہے۔ (الدر المختار مع رد المحتار، جلد 2، صفحہ 739، مطبوعہ کوئٹہ)
جس شہرمیں ملازمت وغیرہ کی غرض سے رہتا ہو، اُس کے وطنِ اصلی نہ ہونے کے متعلق تفصیل بیان کرتے ہوئے سیّدی اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنّت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ(سالِ وفات: 1340ھ/ 1921ء) لکھتے ہیں: ”جب کہ وہ دوسری جگہ نہ اس کا مولد ہے، نہ وہاں اس نے شادی کی، نہ اسے اپنا وطن بنالیا یعنی یہ عزم نہ کرلیا کہ اب یہیں رہوں گا اور یہاں کی سکونت نہ چھوڑوں گا، بلکہ وہاں کا قیام صرف عارضی بر بنائے تعلق تجارت یا نوکری ہے، تو وہ جگہ وطن اصلی نہ ہوئی، اگر چہ وہاں بضرورت معلومہ قیام زیادہ، اگر چہ وہاں برائے چندے یا تا حاجتِ اقامت بعض یا کل اہل وعیال کو بھی لے جائے کہ بہر حال یہ قیام ایک وجہِ خاص سے ہے، نہ مستقل و مستقر، تو جب وہاں سفر سے آئے گا، جب تک 15 دن کی نیت نہ کرے گا، قصر ہی پڑھے گا کہ وطنِ اقامت سفر کرنے سے باطل ہو جاتا ہے۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 8، صفحہ 271، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
مزید ایک مقام پر آپ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ”جب کہ مسکن زید کا دوسری جگہ ہے اور بال بچوں کا یہاں رکھنا عارضی ہے، تو جب یہاں آئے گا اور پندرہ دن سے کم ٹھہرنے کی نیت کرے گا، قصر کرے گا اور پندرہ دن یا زیادہ کی نیت سے مقیم ہو جائے گا، پوری نماز پڑھے گا۔ (فتاوی رضویہ، جلد 8، صفحہ 270، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
یونہی صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”وطن اقامت دوسرے وطن اقامت کو باطل کر دیتا ہے یعنی ایک جگہ پندرہ دن کے ارادہ سے ٹھہرا، پھر دوسری جگہ اتنے ہی دن کے ارادہ سے ٹھہرا، تو پہلی جگہ اب وطن نہ رہی دونوں کے درمیان مسافتِ سفر ہو یا نہ ہو۔ یونہی وطن اقامت وطن اصلی وسفر سے باطل ہو جاتا ہے۔“ (بہار شریعت، جلد 1، حصہ 4،صفحہ 751، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا اعظم عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: WAT-4023
تاریخ اجراء: 20 محرم الحرام 1447ھ / 16 جولائی 2025ء