آخری قعدے کے التحیات میں سے کچھ بھول جائیں تو نماز کا حکم

آخری قعدے میں التحیات میں سے کچھ بھول جائے تو نماز کا حکم

مجیب:مفتی محمد  قاسم عطاری

فتوی نمبر:FAM-657

تاریخ اجراء:07  شعبان المعظم 1446 ھ/06 فروری  2025 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر  کوئی نماز کے آخری قعدہ میں التحیات  پڑھتے پڑھتے بھول جائے تو اب  کیا کرے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   نماز میں قعدہ  اخیرہ فرض ہے یعنی آخری قعدے میں  اتنی دیر تک بیٹھنا  کہ پوری التحیات عبدُہ و رسولُہ تک پڑھ لی جائے، اس کے بغیر فرض ہی ادا نہیں ہوتا، جبکہ  قعدہ اولی  ہو یا  قعدہ اخیرہ ،دونوں ہی قعدوں  میں پوری التحیات عبدُہ و رسولُہ تک پڑھنا واجب ہے، اسے پورا  یا اِس کے بعض حصے کو بھول کر چھوڑدینے سے سجدہ سہو  اور جان بوجھ کر چھوڑنے سے نماز کا  اعادہ واجب ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص نماز کے قعدہ اخیرہ میں التحیات  پڑھتے پڑھتے بھول جائے  تو ایسی صورت میں جتنی التحیات پڑھ چکا  ہے۔ اسی کا تکرار کرلے، اگر یاد آجائے تو ٹھیک، ورنہ   اگر ایسا   بھولا    ہوکہ  کسی صورت  آگے  کا یاد ہی  نہیں آرہا ہو، تو درود و دعا پڑھنے کے بعد سجدہ سہو کرکے نماز پوری کرلے کہ قعدہ اخیرہ یعنی   تشہد کی مقدار  بیٹھنا  فرض تھا  جو کہ   ادا  ہوگیا، اور  واجب  التحیات  کی تلافی سجدہ سہو سے   پوری  ہوجائے گی اور یوں نماز درست ہوجائے گی، ہا ں البتہ اگر سجدہ سہو نہیں کرے گا،  تو اب  نماز کو دوبارہ سے پڑھنا  واجب ہوگا۔

   قعدہ اخیرہ یعنی نماز کے آخری قعدے میں تشہد کی مقدار بیٹھنا فرض ہے، چنانچہ فتاوی عالمگیری میں ہے: ’’(و منها القعود الأخير) مقدار التشهد. كذا في التبيين و هو من قوله التحيات لله إلى عبده و رسوله۔۔۔ و القعدة الأخيرة فرض في الفرض و التطوع حتى لو صلى ركعتين و لم يقعد في آخرهما و قام و ذهب تفسد صلاته.‘‘ ترجمہ: نماز کے فرائض میں سے تشہد کی مقدار قعدہ اخیرہ  بھی ہے، یونہی تبیین میں ہے، اور وہ التحیات للہ سے عبدہ و رسولہ تک  کی مقدار بیٹھنا ہے۔ اور قعدہ اخیرہ، فرض  اور نفل (دونوں طرح کی نمازوں) میں فرض ہے یہاں تک کہ اگر کسی نے دو رکعتیں ادا کیں اور وہ ان کے آخر میں(بقدر تشہد) نہیں  بیٹھا اور کھڑا ہوکر چلا گیا  تو اس کی نماز فاسد ہوجائے گی۔(الفتاوی الھندیۃ، جلد 1، صفحہ 71،70، دار الکتب العلمیہ، بیروت)

   قعدہ اولی ہو یا قعدہ اخیرہ، دونوں ہی  قعدوں میں پوری التحیات یعنی عبدہ و رسولہ تک  پڑھنا واجب ہے، چنانچہ درِ مختار مع رد المحتار میں ہے: ”(و التشھدان)ای: تشھد القعدۃ الاولیٰ و تشھد الاخیرۃ۔۔۔(و کذا فی کل قعدۃ فی الاصح)“ ترجمہ: قعدہ اولیٰ اور قعدہ اخیرہ دونوں میں پورا تشہد پڑھنا واجب ہے۔۔۔ اسی طرح نماز کے ہر قعدے میں اصح قول کے مطابق التحیات پڑھنا واجب ہے۔(در مختار مع رد المحتار، جلد2، کتاب الصلاۃ، صفحہ 196-197، دار المعرفۃ، بیروت)

   قعدہ اخیرہ میں تشہد کا تکرار مطلقاًمُوجبِ سہو نہیں، چنانچہ فتاوی عالمگیری میں ہے: ’’و لو كرر التشهد ۔۔۔في القعدة الثانية فلا سهو عليه، كذا في التبيين‘‘ ترجمہ: اور اگر دوسرے قعدہ(قعدہ اخیرہ ) میں تشہد کا تکرار کیا  تو اس پر سہو نہیں،یونہی تبیین الحقائق میں ہے۔(الفتاوی الھندیۃ، جلد 1، صفحہ 127، دار الکتب العلمیہ، بیروت)

   التحیات پوری یا اس کا بعض حصہ بھول کر ترک ہوجائے  تو سجدہ سہو لازم ہوتا ہے، چنانچہ بحر الرائق میں ہے: ’’يجب سجود السهو بتركه ولو قليلا في ظاهر الرواية لأنه ذكر واحد منظوم فترك بعضه كترك كله ولا فرق بين القعدة الأولى أو الثانية ‘‘ترجمہ: اور ظاہر الروایہ میں تشہد کے(بھول کر)ترک سے سجدہ سہو لازم ہوگا اگرچہ تھوڑی مقدار ہو کیونکہ یہ ایک منظوم ذکر ہے تو اس کے بعض کا ترک، پورے کے ترک کی طرح ہے،اور قعدہ اولی یا قعدہ ثانیہ (اخیرہ)میں کوئی فرق نہیں۔(البحر الرائق، جلد 2، صفحہ 103،102، دار الکتاب الاسلامی، بیروت)

   التحیات ایسی بھولا کہ کسی صورت آگے کا یاد نہیں آرہا ہو، تو سجدہ سہو سے تلافی ہوجائےگی، جیسا کہ  واجب قراءت  بھول کر مجبوری میں رکوع کرنے والے شخص کے متعلق یہی حکم ہے کہ  اُسے سجدہ سہو کافی ہے، چنانچہ  سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فتاوی رضویہ میں ارشاد فرماتے ہیں: ’’جو فقط الحمد ﷲ رب العٰلمین پڑھ کر بھول گیا اور رکوع کر دیا نماز کا فرض ساقط ہو جائیگا مگر ناقص ہوئی کہ واجب ترک ہوا الحمد شریف تمام وکمال پڑھنا ایک واجب ہے اوراس کے سوا کسی دوسری سورت سے ایک آیت بڑی یا تین آیتیں چھوٹی پڑھنا واجب ہے، اگر الحمد ﷲ بھُولا تھا اور واجب اول کے ادا کرنے سے باز رکھا گیا تو واجب دوم کے ادا سے عاجز نہ تھا، فقط ایک ہی آیت پر قناعت کرکے رکوع کردینے میں قصداً ترک واجب ہوا،اور جو واجب قصداً چھوڑا جائے سجدہ سہو اس کی اصلاح نہیں کرسکتا تو واجب ہے کہ نماز دوبارہ پڑھے، ہاں اگر ایسا بھُولا کہ نہ بقیہ فاتحہ یاد آتا ہے نہ قرآن عظیم سے کہیں کی آیتیں اور نا چار رکوع کردیا اور سجدے میں جانے تک فاتحہ وآیات یاد نہ آئیں تو اب سجدہ سہو کافی ہے۔‘‘(فتاوی رضویہ، جلد 6، صفحہ 330،329، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

   سجدہ سہو لازم ہونے کی صورت میں سجدہ سہو نہ کیا  جائے تو نماز کا اعادہ واجب ہوگا، چنانچہ  در مختار میں ہے: ’’تعاد وجوبا فی العمد والسھو إن لم یسجد‘‘ ترجمہ: جان بوجھ کر واجب ترک کرنے اور  بھول کر ترک کرنے کی صورت میں سجدہ      نہ کرنے  سے نماز کا اعادہ واجب ہے۔(در مختار، جلد 2، مطلب: واجبات الصلوۃ، صفحہ 181، دار المعرفۃ، بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم