
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
اوابین کی نماز میں نیت کیا کی جائے گی؟ براہ کرم رہنمائی فرما دیں۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
یہ بات یاد رہے کہ نیت دل کے پختہ ارادے کو کہتے ہیں، لہذا دل میں نیت ہو تو خواہ الفاظ نہ کہے نماز ہو جائے گی۔ البتہ زبان سے کلمات دہرا لینا مستحب ہے۔ اور اصح یہ ہے کہ نفل و سنت و تراویح میں مطلق نماز کی نیت کافی ہے، مگر احتیاط یہ ہے کہ تراویح میں تراویح، سنت وقت یا قیام اللیل کی نیت کرے اور باقی سنتوں میں سنت يا نبی صلی اللہ تعالیٰ عليہ و سلم کی متابعت کی نیت کرے۔ لہذا اوابین کی نماز بھی چونکہ نفلی ہے اس لئے مطلق نماز کی نیت کافی ہے، لیکن ثواب بڑھانے کے لئے حسب حال جتنی اچھی نیتیں بڑھا لے اتنا اچھا ہے۔
محیط برہانی میں ہے
هل يستحب أن يتكلم بلسانه؟ اختلف المشايخ فيه، بعضهم قالوا: لا؛ لأن اللہ تعالى مطلع على الضمائر، و بعضهم قالوا: يستحب و هو المختار، و إليه أشار محمد رحمه اللہ في أول كتاب المناسك
ترجمہ: کیا زبان سے نیت کرنا مستحب ہے؟ تو اس بارے میں مشائخ کا اختلاف ہے، بعض نے فرمایا کہ مستحب نہیں ہے، کیونکہ اللہ تعالی باطن کو جانتا ہے، اور بعض مشائخ نے فرمایا کہ یہ مستحب ہے اور یہی مختار قول ہے، اور اسی کی طرف امام محمد رحمہ اللہ تعالی نے کتاب المناسک کی ابتداء میں اشارہ فرمایا ہے۔ (المحيط البرهاني، جلد 1، صفحہ 289، دار الكتب العلمية، بيروت)
منیۃ المصلی اور اس کی شرح غنیۃ المتملی میں ہے
(المصلی اذا کان متنفلا) سواء کان ذلک النفل سنۃ مؤکدۃ او غیرھا (یکفیہ مطلق نیۃ الصلوۃ) و لا یشترط تعیین ذلک النفل بانہ سنۃ الفجر مثلاً او تراویح او غیر ذلک۔۔۔ (و الاحتیاط فی التراویح ان ینوی التراویح او سنۃ الوقت او قیام اللیل و فی السنۃ ان ینوی السنۃ) نفسھا او ینوی الصلوۃ متابعۃ للنبی علیہ السلام
ترجمہ: نمازی نے جب نفل نماز پڑھنی ہو تو اس کے لیے مطلقاً نماز کی نیت کافی ہے، چاہے وہ نفل سنت مؤکدہ ہو یا اس کے علاوہ ہو، اور اس نفل کی تعیین شرط نہیں ہے کہ مثلاًوہ سنت فجر ہے یا تراویح یا اس کے علاوہ۔ اور تراویح میں احتیاط یہ ہے کہ تراویح، سنت وقت یا قیام اللیل کی نیت کرے اور سنت میں احتیاط یہ ہے کہ نفسِ سنت یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت کی نیت کرے۔ (غنیۃ المتملی شرح منیۃ المصلی، صفحہ 247 تا 249، در سعادت)
در مختار اور رد المحتار میں ہے
(کفی مطلق نیۃ الصلاۃ) بان یقصد الصلاۃ بلا قید نفل او سنۃ او عدد۔۔۔ (لنفل و سنۃ۔۔۔ و تراویح علی المعتمد)
ترجمہ: نفل، سنت اور معتمد قول کے مطابق تراویح میں مطلقاً نماز کی نیت کافی ہے بایں طور کہ وہ نفل، سنت اور تعدادِ رکعات کی قید کے بغیر نماز کا ارادہ کرے۔ (رد المحتار، جلد2، صفحہ 116، مطبوعہ کوئٹہ)
بہار شریعت میں ہے ”اصح یہ ہے کہ نفل و سنت و تراویح میں مطلق نماز کی نیت کافی ہے، مگر احتیاط یہ ہے کہ تراویح میں تراویح یا سنت وقت یا قیام اللیل کی نیت کرے اور باقی سنتوں میں سنت يا نبی صلی اللہ تعالیٰ عليہ و سلم کی متابعت کی نیت کرے، اس ليے کہ بعض مشائخ ان میں مطلق نیت کو ناکافی قرار دیتے ہیں۔“ (بہار شریعت، جلد 1، حصہ 3، صفحہ 493، مکتبۃ المدینۃ، کراچی)
الوظیفۃ الکریمہ میں ہے ”نماز مغرب کے بعد فرض پڑھ کر چھ رکعتیں ایک ہی نیت سے، ہر دو رکعت پر التحیات و درود و دعا اور پہلی، تیسری، پانچویں سبحانک اللھم سے شروع کرے، ان میں پہلی دو سنت مؤکدہ ہوں گی، باقی چار نفل۔ یہ صلوۃ اوابین ہے اور اللہ اوابین کے لئے غفور ہے۔“ (الوظیفۃ الکریمۃ، صفحہ 26، 27، مکتبۃا لمدینۃ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد ابوبکر عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: WAT-4088
تاریخ اجراء: 07 صفر المظفر 1447ھ / 02 اگست 2025ء