نماز کی ہر رکعت میں دو سجدے کیوں ہیں؟

نماز میں دو سجدے کرنے کی حکمت؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ فرشتوں نے حضرت آدم علیہ السلام کو ایک سجدہ کیا تھا، تو ہم نماز میں دو سجدے کیوں کرتے ہیں؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

اکثر مشائخ کے قول کے مطابق نماز میں دو سجدوں کا حکم امر تعبدی ہےیعنی محض عبادت و فرمانبرداری کی بنیاد پر حکم ہے، اس کی اصل وجہ ہماری عقل پر ظاہر نہیں۔ البتہ بعض مشائخ نے اس کی حکمتیں بھی ذکر کی ہیں۔

ایک حکمت یہ ہے کہ شیطان نے حضرت آدم علیہ السلام کو رب تعالیٰ کے حکم سے ایک سجدہ بھی نہ کیا، تو مؤمن نماز کی ہر رکعت میں دو سجدے کر کے اس کی نافرمانی کے مقابلے میں اپنی فرمانبرداری ظاہر کرے اور اس عمل سے شیطان کو ذلیل و رُسوا کرے۔

دوسری حکمت یہ بیان کی گئی ہے کہ جب اللہ تعالی نے بنی آدم سے اپنی ربوبیت و وحدانیت کا اقرار لیا،تو ان سے تصدیق چاہنے کے لئے سجدے کا حکم دیا مسلمانوں نے سجدہ کیا اور کفار محروم رہے، جب مسلمانوں نے اپنے سروں کو سجدے سے اٹھایا تو دیکھا کہ کفار نے سجدہ نہیں کیا تو انہوں نے حکم الہی پر عمل کی توفیق ملنے پر شکریہ کے طور پر دوسرا سجدہ کیا۔

مزید بھی حکمتیں بیان کی گئی ہیں۔ بہرحال حکمتیں جو بھی ہوں مسلمان پر لازم ہے کہ احکام شریعت کو دل و جان سے قبول کرے، کیونکہ اسلام کا معنی ہےسر تسلیم خم کرنا۔ ہر حکم کی حکمت کوہم اپنی ناقص عقل و علم کے ذریعے سمجھ جائیں ، یہ ضروری نہیں ہوتا، لہٰذا حکمت سمجھ آئے یا نہ آئے، بہرصورت حکم شریعت کو دل و جان سے قبول کرنے میں ہی دنیا و آخرت کی بھلائی ہے۔

ہر رکعت میں دو سجدوں کی حکمت سے متعلق بحر الرائق شرح کنز الدقائق میں ہے:

و كونه مثنى في كل ركعة بالسنة و الإجماع، و هو أمر تعبدي لم يعقل له معنى على قول أكثر مشايخنا تحقيقا للابتداء: و من مشايخنا من يذكر له حكمة: فقيل: إنما كان مثنى ترغيما للشيطان حيث لم يسجد فإنه أمر بسجدة فلم يفعل فنحن نسجد مرتين ترغيما له، و قيل الأولى لامتثال الأمر والثانية ترغيما له حيث لم يسجد استكبارا، و قيل: الأولى لشكر الإيمان والثانية لبقائه، و قيل: في الأولى إشارة إلى أنه خلق من الأرض، وفي الثانية إلى أنه يعاد إليها، و قيل: لما أخذ الميثاق على ذرية آدم أمرهم بالسجود تصديقا لما قالوا فسجد المسلمون كلهم وبقي الكفار فلما رفع المسلمون رءوسهم رأوا الكفار لم يسجدوا فسجدوا ثانيا شكرا للتوفيق كما ذكره شيخ الإسلام

 ترجمہ: اور ہر رکعت میں دو سجدے ہونا سنت اور اجماع سے ثابت ہے، اور ہمارے اکثر مشائخ کے قول کے مطابق یہ ایک تعبّدی (یعنی محض عبادت پر مبنی) حکم ہے، اس کی ابتدا کی تحقیق میں کوئی علت عقل میں معلوم نہیں۔ اور  ہمارے بعض مشائخ نے اس کے لیے کچھ حکمتیں ذکر کی ہیں: کہا گیا ہے کہ دو سجدے شیطان کو ذلیل کرنے کیلئے مقرر ہوئے جبکہ اس نے سجدہ نہیں کیا، کیونکہ اسے سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا اور اس نے نہ کیا، تو ہم اسے ذلیل کرنے کیلئے دو بار سجدہ کرتے ہیں۔ اور کہا گیا کہ پہلا سجدہ حکم (یعنی رب تعالی کے فرمان:واسجدوا) کی تعمیل کے لیے ہے اور دوسرا اس کے مقابلے میں شیطان کو ذلیل کرنے کے لیے کہ اس نے تکبر سے سجدہ نہ کیا۔ اور کہا گیا کہ پہلا سجدہ ایمان کی نعمت پر شکر کے طور پر ہے اور دوسرا اس کے باقی رہنے کیلئے ہے۔ اور کہا گیا کہ پہلا سجدہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ انسان مٹی سے پیدا کیا گیا، اور دوسرا اس بات کی طرف اشار ہ ہے کہ انسان کو اسی مٹی میں واپس جانا ہے۔ اور کہا گیا کہ جب حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد سے عہد لیا گیا تو انہیں بطور تصدیق سجدے کا حکم دیا، چنانچہ سب مسلمانوں نے سجدہ کیا اور کافر باقی رہ گئے(انہوں نے سجدہ نہ کیا)، پھر جب مسلمانوں نے سر اٹھایا اور دیکھا کہ کفار نے سجدہ نہیں کیا تو انہوں نے توفیقِ الٰہی پر شکر کے طور پر دوبارہ سجدہ کیا، جیسا کہ شیخ الاسلام نے ذکر فرمایا۔ (بحر الرائق، جلد 1، صفحہ 310،دار الکتاب الاسلامی، بیروت)

سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن نے فتاوی رضویہ میں بیان فرمایا:’’مبسوط امام شیخ الاسلام پھر حلیۃ میں دونوں سجدے فرض ہونے کی حکمت بیان فرمائی:

ھذا ماروی فی الاخباران ﷲ تعالٰی لما اخذ المیثاق من ذریۃ اٰدم علیہ الصلاۃ و السلام حیث قال عزوجل واذ اخذ ربک من بنی اٰدم من ظھورھم ذریتھم الاٰیۃ امرھم بالسجود تصدیقا لما قال فسجد المسلمون کلھم وبقی الکفار فلما رفع المسلمون رؤسھم و رأو الکفار لم یسجدوا فسجدوا ثانیا شکرالما وفقھم ﷲ تعالٰی علی السجود الاول فصار المفروض سجدتین لھذا والرکوع مرۃ

ترجمہ: یہ اس بنا پر ہے جو روایات میں ہے کہ اللہ تعالٰی نے جب اولادِآدم علیہ الصلٰوۃ و السلام سے عہد لیا جس کا ذکر اللہ نے اس آیت میں کیا ہے: اور یاد کرو اس وقت کو جب اے حبیب! آپ کے رب نے بنی آدم سے ان کی پشتوں میں ان کی اولاد سے عہد لیا (الآیۃ)، تو انھیں بطور تصدیق سجدے کا حکم دیا تو اللہ کے حکم پر تمام مسلمان سجدہ ریز ہوگئے لیکن کافر کھڑے محروم رہ گئے جب مسلمانوں نے سجدے سے سر اُٹھایا اور دیکھا کہ کفار نے سجدہ نہیں کیا تو وہ دوبارہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے سجدہ ریز ہوگئے کہ اللہ تعالٰی نے انھیں سجدہ اوّل کی توفیق دی، لہذا نماز میں دوسجدے فرض ولازم ہوگئے اور رکوع ایک ہی رہا۔(ت)۔‘‘ (فتاوٰی رضویہ، جلد 6، صفحہ 171، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فتاوی رضویہ میں ارشاد فرماتے ہیں: ’’احکام الٰہی میں چون وچرا نہیں کرتے، الاسلام گردن نہادن نہ کہ زبان بجرأت کشادن(اسلام، سر تسلیم خم کرنا ہے نہ کہ دلیری سے لب کشائی کرنا۔ ت) بہت احکام الٰہیہ تعبدی ہوتےہیں اور جو معقول المعنی ہیں ان کی حکمتیں بھی من وتو کی( یعنی ہمارے اور تمہارے) سمجھ میں نہیں آتیں۔۔۔ مسلمان کی شان یہ ہے: سمعنا و اطعنا غفرانک ربنا و الیک المصیر۔ ہم نے سنا اور اطاعت کی، تیری بخشش کے طلبگار ہیں اور تیری طرف ہی لوٹنا ہے(ت)۔‘‘ (فتاوٰی رضویہ، جلد 13، صفحہ 297، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: FAM-945

تاریخ اجراء: 24 ربیع الاخر 1446ھ / 17 اکتوبر 2025ء