
دارالافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
جو امام داڑھی کے سفید بال اکھاڑلے اس کے پیچھے اقتداء ہوسکتی ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
حدیث شریف میں سفید بالوں کو اکھیڑنے سے منع کیا گیا ہے کیونکہ سفید بال مسلمان کا نور ہیں اس لئے فقہائے کرام نے بطورِ زینت سفید بالوں کو اکھاڑنا یا قینچی سے چن کر نکلوانا مکروہ قرار دیا ہے اور عام طور پر اس عمل سے مقصود زینت ہی ہوتی ہے اورعباراتِ فقہاء سے ظاہر ہے کہ یہ عمل مکروہِ تنزیہی و خلافِ اولیٰ ہے البتہ اگر زینت مقصود نہ ہو جیسے مجاہد اگر اس نیت سے ایسا کرے کہ کفار پر اس کا رعب طاری ہو تو بلاکراہت جائز ہے۔
جو امام سفید بال نوچ لیتا ہے، اس کا فعل زیادہ سے زیادہ مکروہ تنزیہی کی حد تک ہے، اگرچہ ایسا نہیں کرنا چاہیے مگر صرف اس وجہ سے اس کی امامت میں کوئی حرج نہیں۔
مشکوٰۃ شریف میں ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”لا تنتفوا الشیب فانّہ نور المسلم من شاب شیبۃ فی الاسلام کتب اللہ لہ بھا حسنۃ وکفر عنہ بھا خطیئۃ ورفعہ بھا درجۃ“
ترجمہ: بڑھاپے کی نشانی نہ اکھیڑو کہ وہ مسلمان کا نور ہے۔ جو اسلام میں بوڑھا ہوتو اللہ اس کے لئے ایک نیکی لکھتا ہے اور اس سےاس کی برکت سے ایک گناہ مٹاتا ہے اور اس کی وجہ سے اس کادرجہ بلند کرتا ہے۔ (مشکوۃ المصابیح، ص382، مطبوعہ کراچی)
زینت کی نیت سے سفید بال اکھیڑنے کے مکروہ ہونے کے متعلق اس حدیث شریف کی شرح کے تحت میں ہے:
”قال بعض العلماء لا یکرہ نتف الشیب الا علی وجہ التزیّن“
ترجمہ: کچھ علماء نے فرمایا کہ سفید بال اکھیڑنا مکروہ نہیں مگر جبکہ زینت کے ارادے سے ہو۔ (مرقاۃ المفاتیح، ج8، ص306، مطبوعہ ملتان)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
”نتف الشیب مکروہ للتزیین لا لترھیب العدوّ“
ترجمہ: زینت کی نیت سے سفید بال اکھیڑنا مکروہ ہیں نہ کہ دشمن کو ڈرانے کے ارادے سے۔ (الفتاوی الھندیۃ، ج5، ص359، مطبوعہ پشاور)
درّ مختار میں لکھا ہے: ”لاباس بنتف الشیب“ ترجمہ: سفید بال اکھیڑنے میں کوئی حرج نہیں۔ (الدرّالمختار، ج10، ص50، مطبوعہ دارالحدیث مصر)
سفید بال اکھیڑنے کے خلافِ اولیٰ ہونے کے متعلق درّ مختار کی مذکورہ عبارت کے تحت حاشیہ طحطاوی میں ہے:
”والتعبیر بلاباس یفید ان الاولی ترکہ لما انّہ نور ووقار کما ورد“
یعنی صاحبِ درّمختار کا اسے لاباس سے تعبیر کرنا یہ فائدہ دے رہا ہے کہ بہتر اس کا ترک ہے کیونکہ سفید بال نور اور وقار ہیں جیسا کہ حدیث شریف میں وارد ہوا ہے۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی الدرّ، ج4، ص203، مطبوعہ کوئٹہ)
درّ مختار کی اسی عبارت کے تحت فتاوی شامی میں ہے:
”قیدہ فی البزازیۃ بان لایکون علی وجہ التزین“
یعنی بزازیہ میں اس مسئلے کو مقید کیا کہ حرج نہ ہونا اس وقت ہے کہ سفید بال اکھیڑنا زینت کے لئے نہ ہو۔ (ردّ المحتار، ج10، ص50، مطبوعہ دارالحدیث مصر)
صدرالشریعہ علامہ مفتی محمد امجدعلی اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: ”سفیدبالوں کو اکھاڑنا یا قینچی سے چن کر نکلوانا مکروہ ہے، ہاں مجاہد اگر اس نیت سے ایسا کرے کہ کفار پر اس کا رعب طاری ہوتو جائز ہے۔“ (بہار شریعت، ج3، حصہ16، ص587، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا عابد عطاری مدنی
فتوی نمبر: Web-2284
تاریخ اجراء: 7ربیع الاوّل1447 ھ/01ستمبر2025 ء