
مجیب:مولانا محمد ابوبکر عطاری مدنی
فتوی نمبر:WAT-3638
تاریخ اجراء:16 رمضان المبارک 1446 ھ/ 17مارچ 2025 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
ایک بھائی ہیں وہ عشااور تراویح جماعت سے نہیں پڑھتے بلکہ دکان پر خود رکتے ہیں اور چھوٹے بھائی کو نماز کے لیے بھیجتے ہیں، اس کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ میں اگر خود جاؤں گا تو چھوٹا بھائی نماز نہیں پڑھے گا، جب وہ نماز پڑھ کے آجاتا ہے تو میں پھر عشا و تراویح اپنے طور پر ادا کر لیتا ہوں، تو کیا ایسا کرنا جائز ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
فرض نماز مسجد کی جماعت اولی کے ساتھ ادا کرنا مرد پر واجب ہے جبکہ جماعت ساقط ہونے کا کوئی عذرِ شرعی نہ ہو، پوچھی گئی صورت میں دکان پر کھڑا ہونا کوئی عذرِ شرعی نہیں لہذا لازم ہے کہ جماعت سے نماز ادا کریں، فرض نماز کی جماعت میں زیادہ سے زیادہ دس منٹ لگ جائیں گے، اتنی دیر اپنی دکان وقتی طور پر بند کر کے سائن "وقفہ برائے نماز" (بہتر ہے کہ دعوت اسلامی کی جانب سے جاری کردہ یہ سائن "ہم نماز کے لیے جا چکے، آپ بھی آ جائیں "مکتبۃ المدینہ سے حاصل کر کے) لگا دیں اور اپنے بھائی کے ساتھ فرض نماز با جماعت ادا کریں، پھر چاہیں تودکان پر آ جائیں اور جب چھوٹا بھائی تراویح ادا کر کے آ جائے تو یہ اپنی تراویح ادا کر لیں کہ مردوں کے لیے تراویح کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کرنا سنتِ مؤکدہ علی الکفایہ ہے یعنی اگر مسجد میں تراویح کی جماعت ہو جاتی ہے اور کوئی اپنی تراویح الگ پڑھتا ہے تو اس کے لیے یہ جائز ہے۔
مرد کا بلاعذر شرعی مسجد کی جماعت ترک کر دینا ہر گز جائز نہیں۔ حدیث پاک میں فرمایا کہ بلاعذر جماعت چھوڑنے والے کی نماز ہی نہیں ہوتی۔ چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعا لی عنہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم سے روا یت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”من سمع النداء و لم یاتہ فلا صلوة لہ الا من عذر“ ترجمہ: جس نے اذا ن سنی اور نماز کے لئے حا ضر نہ ہو، تواس کی نماز ہی نہیں مگریہ کہ کوئی عذر ہو۔(سنن ابن ماجہ، ص 57، مطبوعہ کرا چی)
حضرت علی رضی اللہ عنہ مسجد کی جماعت چھوڑ کر نماز پڑھنے کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں: ”لا صلاة لجار المسجد الا في المسجدقال الثوری في حديثه قيل لعلي: و من جار المسجد؟ قال: من سمع النداء“ ترجمہ:مسجدکے پڑوسی کی نمازنہیں، مگرمسجدمیں۔امام ثوری علیہ الرحمۃکی حدیث میں ہے:حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھاگیاکہ مسجدکاپڑوسی کون ہے؟ارشادفرمایا:جواذان کی آوازسُنے۔ (مصنف عبدالرزاق، ج1، ص497 ، المکتب الاسلامی، مطبوعہ بیروت)
مسجد کے قریب ہوتے ہوئے مسجد کی جماعت چھوڑ کر اپنی نماز پڑھنے والے کے بارے میں امام اہل سنت، الشاہ امام احمدرضاخان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں: ”مگرفرائض بے عذرقوی مقبول اگرحجرہ میں پڑھے اور مسجد میں نہ آئے، گنہگار ہے، چندبار ایساہو، توفاسق، مردود الشہادۃ ہوگا۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 7، صفحہ 394- 393، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
ایک اور جگہ ارشادفرماتے ہیں: ”پانچوں وقت کی نماز مسجد میں جماعت کے ساتھ واجب ہے ؛ ایک وقت کابھی بلاعذر ترک گناہ ہے۔“ (فتاوٰی رضویہ، جلد 7، صفحہ 194، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
تراویح کی جماعت سنتِ موکدہ علی الکفایہ ہےجیسا کہ نور الایضاح میں ہے: ’’و صلاتها بالجماعة سنة كفاية‘‘ ترجمہ : تراویح کی جماعت سنت کفایہ ہے۔
اس کے تحت حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی میں ہے :’’فلا لوم على من لم يحضر الجماعة إلا أن يتركوها جميعا أو يكون فقيها يقتدى به‘‘ ترجمہ: پس جو تراویح کی جماعت میں حاضر نہ ہوا اسے ملامت نہیں کی جائے گی سوائے اس کے کہ سب لوگ جماعت ترک کر دیں یا کوئی ایسافقیہ ترک کرے جس کی اقتدا کی جاتی ہو۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی، ج 1، ص 412، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم