
دار الافتاء اھلسنت(دعوت اسلامی)
سوال
میرا سوال یہ ہے کہ اگر میں نے عید الفطر کی نماز امام کے پیچھے پڑھ لی اور بعد میں کچھ اور مقتدی آئے تو کیا میں ان مقتدیوں کی امامت کر سکتا ہوں؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
ایک بار نمازِ عید کا واجب ادا کرنے کے بعد آپ دیگر افراد کی امامت نہیں کرسکتے، اور نہ ان افراد کی آپ کے پیچھے اقتدا درست ہوگی کہ آپ کی نماز نفل ہو گی اور ان افراد کی نماز واجب ہو گی تویوں قوی کی ضعیف پر بنیاد رکھنا لازم آئے گا جوکہ درست نہیں۔
نوٹ: یہ بھی یاد رہے کہ! عیدکی امامت ہر کوئی نہیں کرسکتا بلکہ اس کے لیے بھی جمعہ کی امامت کی طرح مخصوص شرائط ہیں لہذا اگر مثلا عید کی نماز ہوجانے کے بعد چند لوگ آئے جنہوں نے عید کی نماز ادا نہیں کی تھی، لیکن ان میں سے کوئی بھی عیدکی امامت کی شرائط پر پورا نہیں اترتا، تو اب اگرچہ ان ہی میں سے کوئی ایک امام بن جائے اور بقیہ لوگ اس کی اقتدا میں نماز ادا کریں تو اس طرح عید کی نماز نہیں ہوگی۔
در مختار میں ہے
" (و) لا (ناذر) بمتنفل"
ترجمہ: اورنہ منت ماننے والانفل پڑھنے والے کی اقتدا کرسکتا ہے۔
اس کے تحت ردالمحتارمیں ہے
"(قوله و لا ناذر بمتنفل) لأن النذر واجب فيلزم بناء القوي على الضعيف"
ترجمہ: منت والا،نفل والے کی اقتدااس لیے نہیں کرسکتاکہ منت واجب ہے توقوی کی ضعیف پر بنا لازم آئے گی۔ (در مختار مع رد المحتار، ج 1، ص 580، دار الفکر، بیروت)
فتاوی رضویہ میں ہے "دیکھو نص فرماتے ہیں کہ امام کے پیچھے نہ پڑھے تو دوسرے اما م کے پیچھے پڑھے۔۔ ۔ مگر یہ ضرور ہے کہ جوامام عیدین وجمعہ کے لئے مقرر ہو اسے بھی فوت ہوئی ہو کہ امامت کے لئے امام معین مل سکے اور اگر مقرر کردہ امام سب پڑھ چکے اور بعض لوگ رہ گئے تو یہ بیشک نہیں پڑھ سکتے۔" (فتاوی رضویہ، ج 8، ص 580، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
فتاوی رضویہ میں ہے ”جمعہ وعیدین کی امامت پنجگانہ کی امامت سے بہت خاص ہے، امامت پنجگانہ میں صرف اتنا ضرور ہے کہ امام کی طہارت ونماز صحیح ہو ، قرآن عظیم صحیح پڑھتاہو، بد مذہب نہ ہو، فاسق معلن نہ ہو، پھر جو کوئی پڑھائے گا نماز بلاخلل ہوجائے گی بخلاف نماز جمعہ وعیدین کہ ان کے لئے شرط ہے کہ امام خود سلطان اسلام ہویا اس کا ماذون، اور جہاں یہ نہ ہوں تو بضرورت جسے عام مسلمانوں نے جمعہ وعیدین کا امام مقرر کیا ہوکما فی الدر المختار وغیرہ ( جیسا کہ درمختار وغیرہ میں ہے) دوسرا شخص اگر کیسا ہی عالم و صالح ہو ان نمازوں کی امامت نہیں کرسکتا اگر کرے گا نماز نہ ہوگی۔ (فتاوی رضویہ، ج 8، ص 569 ،570، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد نور المصطفیٰ عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-3837
تاریخ اجراء: 19 ذو القعدۃ الحرام 1446 ھ/17 مئی 2025 ء