Farz Aur Wajib Ke Mutaliq Tafseel

 

فرض اور واجب  کے متعلق تفصیل

مجیب:مولانا محمد ابوبکر عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3549

تاریخ اجراء: 05شعبان المعظم 1446ھ/04فروری2025ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   فرض اور واجب میں کیا فرق ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   فرض و واجب میں سے ہر ایک کی دو قسمیں ہیں: اعتقادی و عملی۔سب کی تعریفات درج ذیل ہیں:

   فرض اعتقادی : جودلیلِ قطعی سے ثابت ہو (یعنی ایسی دلیل سے جس میں کوئی شبہہ نہ ہو) اس کا انکار کرنے والا متاخرین ائمہ حنفیہ کے نزدیک مطلقاً کافر ہے(یعنی اس کی فرضیت ضروریات دین سے ہویانہ ہو،بہرصورت اس کا انکار کرنے والامتاخرین ائمہ احناف کے نزدیک کافرہے) اور اگر اس کی فرضیت ضروریات دین سے ہو(یعنی دین ِ اسلام کا عام و خاص پر روشن واضح مسئلہ ہو) جب تو اس کے منکر (انکارکرنے والے)کے کفر پر اِجماعِ قطعی ہے، ایسا کہ جو اس منکر(انکارکرنے والے) کے کفر میں شک کرے خود کافر ہے ۔

   اور جو کسی فرضِ اعتقادی کو بلا عذرِ صحیح شَرْعی قَصْداً ایک بار بھی چھوڑے فاسق و مرتکبِ کبیرہ و مستحقِ عذاب نار ہے جیسے نماز ، رکوع، سجود۔

   فرض عملی: وہ جس کا ثبوت تو ایسا قطعی نہ ہو جیسافرض اعتقادی کاہوتاہے ،مگر  کسی مجتہدکو شرعی دلائل کی روشنی میں اس کے متعلق اتنایقین ہوکہ اس کی ادائیگی کے بغیرانسان بری الذمہ نہیں ہوسکتا،اب اگروہ کسی عبادت کے اندرفرض ہے، تواسے یقین ہوتاہے کہ جب تک اس فرض کوبھی ادانہ کرلے اس وقت تک اس کی وہ عبادت درست ہی نہیں ہوگی بلکہ باطل وکالعدم ہوگی ۔

   اوراس کا بلاوجہ انکار فسق و گمراہی ہے ،ہاں اگر کوئی شخص کہ دلائلِ شَرْعیہ میں نظرکا اہل ہے(یعنی مجتہدہے)،وہ دلیلِ شَرْعی سے اس کا انکار کرے تو کر سکتا ہے۔ جیسے آئمہ مجتہدین کے اختلافات کہ ایک امام کسی چیز کو فرض کہتے ہیں اور دوسرے نہیں مَثَلاًحنفیہ کے نزدیک چوتھائی سر کا مسح وُضو میں فرض ہے اور شافعیہ کے نزدیک ایک بال کا ،اور مالکیہ کے نزدیک پورے سر کا ۔اسی طرح حنفیہ کے نزدیک وُضو میں بسم اللہ کہنا اور نیت سنت ہے اور حنبلیہ و شافعیہ کے نزدیک فرض ۔اور ان کے علاوہ اور بہت ساری مثالیں ہیں ۔

   اس فرضِ عملی میں ہر شخص اُسی کی پیروی کرے ،جس کا مقلّد ہے ،اپنے امام کے خلاف بلا ضرورتِ شَرْعی دوسرے کی پیروی جائز نہیں۔

   واجب اعتقادی: وہ کہ  جس کاضروری ہونا،دلیلِ ظنی سے ثابت ہو۔

   اس کی دوقسمیں ہیں :فرضِ عملی و واجبِ عملی، وہ انہیں دو میں منحصر ہے۔

   واجب عملی: وہ واجبِ اعتقادی کہ  اس کواداکیے بغیربھی انسان کے بری الذمہ ہونے کا احتمال ہو مگر غالب  گمان یہی ہوکہ اس کی ادائیگی ضروری ہے ،اس کے بغیربری الذمہ نہیں ہوگا اور اگر کسی عبادت میں اس کا بجا لانا مطلوب ہو تو اس کے اداکیے بغیروہ عبادت ناقص رہے مگر ادا ہو جائے ۔مجتہد دلیلِ شَرْعی سے واجب کا انکار کر سکتا ہے۔ اور کسی واجب کا ایک بار بھی قَصْداً چھوڑنا گناہِ صغیرہ ہے اور چند بار چھوڑنا کبیرہ۔(ملخصاومسہلاازبہار شریعت، جلد1، حصہ2، صفحہ282-283،مکتبۃ المدینہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم