غلط سمت میں نماز پڑھنے کا شرعی حکم

نماز پڑھنے کے بعد معلوم ہوا کہ غیرقبلہ کی سمت نماز پڑھی گئی

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

اگر قبلہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھ لی پھر بعد میں پتہ چلا کہ نماز غیر قبلہ کی طرف ادا کی ہے تو کیا وہ نماز دوبارہ پڑھنی ہوگی؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

نماز میں استقبالِ قبلہ ایک بنیادی شرط ہے اور شرط نہ پائی جانے کی صورت میں نماز نہیں ہوتی، لہذا ممکنہ صورت میں درست سمتِ قبلہ کا تعین کرکے اسی رخ پر نماز ادا کرنا ضروری ہے، جس کا طریقہ یہ ہے کہ اس جگہ پرموجود مساجدیا قدیم محرابیں دیکھ کر یاکسی قابلِ اعتماد مسلمان سے پوچھ کر، ورنہ ستارےوغیرہ موجود ہوں توان کے ذریعے جہت معلوم کی جائے اگر اسے ان کے ذریعےجہت معلوم کرنے کاعلم ہو۔ پھر اگر یہ صورت بھی ممکن نہ تو پھر تحری یعنی غوروفکر کرنے کے بعد جس طرف گمان غالب ہو، اسی سمت رخ کرکے نماز ادا کرے۔ اس صورت میں تحری کرکے پڑھی گئی نماز درست ادا ہوگی اگرچہ بعد میں یہ ظاہر ہو کہ نماز قبلہ کی سمت ادا نہیں ہوئی۔لیکن اگر مذکورہ شرعی تقاضوں کےبغیر نماز ادا کی مثلامحرابیں وغیرہ موجودتھیں لیکن ان کا اعتبار نہ کیا، اپنی رائے سے ایک سمت منہ کرکے نماز پڑھ لی یا بتانے والا موجود ہے لیکن پوچھے بغیر خود ہی سوچ کرنماز پڑھ لی یاستارے وغیرہ موجودہیں اور اسے ان کے ذریعے جہت معلوم کرنے کا علم ہے لیکن ان کے ذریعے جہت معلوم نہ کی، خود ہی کسی سمت کو سوچ کر نماز پڑھ لی، تو ان تمام صورتوں میں جس سمت کی طرف اس نے منہ کرکے نماز ادا کی، اگر وہ درست سمت تھی (جانب قبلہ تھی) تب تونمازہوگئی ورنہ نمازنہیں ہوئی۔ اسی طرح جس صورت میں تحری(یعنی غور و فکر) کرکے نمازپڑھنے کی اجازت تھی، اس صورت میں اس نے بغیرتحری کے نمازپڑھی تواگربعدنمازیقین کے ساتھ معلوم ہوگیا کہ درست سمت نماز پڑھی ہےتو نماز ہوگئی،اوراگردرست سمت کاصرف گمان ہے،یقین نہیں ہے تو نماز نہیں ہوگی، پس اس صورت میں بھی جب اسے معلوم ہوگیاکہ درست سمت نہیں پڑھی توتب بھی نمازنہیں ہوگی۔

نماز میں قبلہ کی طرف منہ کرنا ضروری ہے۔فتاوی ہندیہ میں ہے:

” لا يجوز لأحد أداء فريضة و لا نافلة و لا سجدة تلاوة و لا صلاة جنازة إلا متوجها إلى القبلة۔۔۔ و جهة الكعبة تعرف بالدليل و الدليل في الأمصار و القرى المحاريب التي نصبها الصحابة و التابعون فعلينا اتباعهم، فإن لم تكن فالسؤال من أهل ذلك الموضع، و أما في البحار و المفاوز فدليل القبلة النجوم۔۔۔لو كان بحضرته من يسأله عنها فلم يسأله و تحرى و صلى فإن أصاب القبلة جاز و إلا فلا“

ترجمہ: کسی بھی شخص کے لئے جائز نہیں کہ وہ قبلہ کے علاوہ کسی اور طرف منہ کرکے نماز پڑھے خواہ وہ فرض نماز ہو یا نفل، سجدہ تلاوت ہو یانماز جنازہ اورجہتِ قبلہ دلیل سے جانی جائے گی، جو کہ شہروں اور دیہاتوں میں وہ محرابیں ہیں کہ جو صحابہ کرام و تابعین نے بنائیں۔ تو ہم پر ان کا اتباع کرنا لازم ہے۔ تو اگر وہ نہ ہوں تو اس جگہ کے رہنے والوں سے پوچھاجائے گا۔ اور جہاں تک سمندروں اور بیابانوں کا تعلق ہے، وہاں قبلہ کو ستاروں سے جانا جائے گا۔ اگر کوئی ایسا شخص موجود ہے جس سے یہ سوال کر سکتا تھا اور اس سے سوال نہ کیا اور تحری کی اور نماز پڑھی تو اگر درست قبلہ کی سمت نماز پڑھی تو نماز درست ہو گئی ورنہ نہیں۔ (فتاوی ھندیہ، جلد 1، صفحہ 63، 64، دار الفکر، بیروت)

محارب قدیمہ اور کسی مسلمان سے سوال ممکن نہ ہوتو پھر ستاروں سے قبلہ معلوم کیا جائے گا۔ جامع الرموزمیں ہے:

”و الجهة تعرف بالدليل کالمحاريب القدیمۃ۔۔۔ و کالسوال عن اھل ذلک الموضع و لو واحدا فاسقا، اذا ظن صدقہ و عند فقد ھذین النجوم۔۔۔ و عند فقد ھذہ الامور التحری“

ترجمہ: اور جہت (قبلہ) دلیل سے جانی جائے گی، جیسا کہ قدیم محرابیں اور جیسا کہ اس جگہ کے رہنے والوں سے پوچھنا اگرچہ وہ شخص فاسق ہی ہو، جبکہ اس کے سچے ہونے کا گمان ہو اور ان دونوں کے نہ پائے جانے کی صورت میں ستاروں سے جہت قبلہ جانی جائے گی۔ اور ان چیزوں (یعنی: محرابیں، لوگوں سے سوال پوچھنے اور ستاروں کے علم) کے نہ پائے جانے کی صورت میں تحری کی جائے گی۔ (جامع الرموز، ج 1، ص 130، مطبوعہ کراچی)

بہار شریعت میں ہے "یہاں شروط کا بیان ہے کہ بے اُن کے(نماز) ہوگی ہی نہیں۔۔۔۔۔ (نماز کی) تیسری شرط استقبال قبلہ: یعنی نماز میں قبلہ یعنی کعبہ کی طرف منہ کرنا۔۔۔ اگر کسی شخص کو کسی جگہ قبلہ کی شناخت نہ ہو، نہ کوئی ایسا مسلمان ہے جو بتا دے، نہ وہاں مسجدیں محرابیں ہیں، نہ چاند، سورج، ستارے نکلے ہوں یا ہوں مگر اس کو اتنا علم نہیں کہ ان سے معلوم کر سکے، تو ایسے کے لیے حکم ہے کہ تحری کرے (سوچے جدھر قبلہ ہونے پر دل جمے ادھر ہی منہ کرے)، اس کے حق میں وہی قبلہ ہے۔ تحری کر کے نماز پڑھی، بعد کو معلوم ہوا کہ قبلہ کی طرف نماز نہیں پڑھی، ہو گئی، اعادہ کی حاجت نہیں۔ ایسا شخص اگر بے تحری کسی طرف مونھ کرکے نماز پڑھے، نماز نہ ہوئی، اگرچہ واقع میں قبلہ ہی کی طرف مونھ کیا ہو، ہاں اگر قبلہ کی طرف مونھ ہونا، بعد نماز یقین کے ساتھ معلوم ہوا، ہوگئی اورا گر بعد نماز اس کا جہت قبلہ ہونا گمان ہو، یقین نہ ہو يا اثنائے نماز میں اسی کا قبلہ ہونا معلوم ہوا، اگرچہ یقین کے ساتھ تو نماز نہ ہوئی۔۔ ۔ ۔۔ اگر کوئی جاننے والا موجود ہے، اس سے دریافت نہیں کیا، خود غور کر کے کسی طرف کو پڑھ لی، تو اگر قبلہ ہی کی طرف منہ تھا، ہوگئی، ورنہ نہیں۔۔۔ اگر مسجدیں اور محرابیں وہاں ہیں، مگر ان کا اعتبار نہ کیا، بلکہ اپنی رائے سے ایک طرف کو متوجہ ہو لیا، یا تارے وغیرہ موجود ہیں اور اس کو علم ہے کہ ان کے ذریعہ سے معلوم کر لے اور نہ کیا بلکہ سوچ کر پڑھ لی، دونوں صورت میں نہ ہوئی، اگر خلاف جہت کی طرف پڑھی۔" (بہار شریعت، ج 1، حصہ 3، ص 475 ،486 ، 489 ،490، مکتبۃ المدینہ)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد آصف عطاری مدنی

فتویٰ نمبر: WAT-3884

تاریخ اجراء: 29 ذو القعدۃ الحرام 1446 ھ / 27 مئی 2025 ء