Imam Qada Ula mein Der kare to Muqtadi ka Luqma Dena Kaisa?

امام قعدہ اولیٰ میں زیادہ دیر لگائے تو مقتدی کالقمہ دینا

مجیب:مولانا عبدالرب شاکر عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3438

تاریخ اجراء:07رجب المرجب1446ھ/07جنوری2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   امام قعدہ اولیٰ کو قعدہ اخیرہ سمجھ کر تاخیر کرے،  تو مقتدی کب لقمہ دیں؟ اور اگر امام اس صورت میں سلام پھیردے،  تو مقتدی کیا کریں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   قعدہ اولی میں امام کے محض زیادہ دیرلگانے سے مقتدی کو لقمہ دینے کی اجازت نہیں ہوتی، لہذااگرایسی صورت میں مقتدی لقمہ دے گا، تو اس  کی نماز ٹوٹ جائے گی اور اگرامام اس کالقمہ لے گا، تو امام کی بھی نمازٹوٹ جائے گی اوراس کی وجہ سے سارے مقتدیوں کی نماز ٹوٹ جائے گی، ہاں! اگر امام سلام پھیرنے لگے، تو اس وقت لقمہ دے، اس صورت میں امام  لقمہ لے کرکھڑاہوجائے گااور بقیہ نما ز پوری کر کے آ خر میں سجدۂ سہو کرے گا۔

   اور اگر بالفرض نہ امام کویادآیااورنہ کسی نے لقمہ دیایہاں تک کہ امام  نے بھول کر سلام پھیر دیا اور سلام پھيرنے کے بعد کوئی منافی نماز کام نہیں کیا، مثلاً کھانا، پينا،  کلام کرنا يا مسجد سے باہر نکل جانا وغيرہ نہيں کيا تھا کہ اسے ياد آ گيا کہ ميں نے دوسری رکعت پر سلام پھير ديا ہے، یااسے لقمہ دے دیاگیا  توفورا وہیں سے نمازجاری کردےاورآخرمیں سجدہ سہوکرلے تو نماز درست ہو جائے گی اور اگر منافی نماز کام کر ليا، اس کے بعديادآيا یالقمہ دیاگیا،  تو اب نماز دوبارہ پڑھنی ہو گی۔ اسی طرح اگراس دوران کسی مقتدی نے منافی نمازکرلیاتھا، اگرچہ امام نے نہیں کیاتھاتوامام اورجن مقتدیوں نے کوئی منافی نمازنہیں کیاتھا اور انہوں نے بقیہ نمازدرست طریقے سے مکمل کرلی تو ان کی نمازہوگئی اور جو نمازی منافی نماز کام کرچکا تھا، اس کی نمازٹوٹ گئی، وہ امام کے ساتھ دوبارہ شامل ہوجائے اور امام کے سلام پھیرنے کے بعد اپنی بقیہ نماز ادا کرلے۔

   فتاوی رضویہ میں ہے” ظاہر ہے کہ جب امام کوقعدہ اولی میں دیرہوئی اور مقتدی نے اس گمان سے کہ یہ قعدہ اخیرہ سمجھا ہے تنبیہ کی تودوحال سے خالی نہیں یا تو واقع میں اس کاگمان غلط ہوگا یعنی امام قعدہ اولی ہی سمجھا ہے اور دیر اس وجہ سے ہوئی کہ اس نے اس بار التحیات زیادہ ترتیل سے ادا کی جب توظاہر ہے کہ مقتدی کابتانا نہ صرف بے ضرورت بلکہ محض غلط واقع ہواتویقینا کلام ٹھہرا اور مفسد نماز ہوا۔۔۔ یا اس کا گمان صحیح تھا، غورکیجئے تو اس صورت میں بھی اس بتانے کامحض لغو وبے حاجت واقع ہونا اور اصلاح نماز سے اصلاً تعلق نہ رکھنا ثابت کہ جب امام قدہ اولٰی میں اتنی تاخیر کرچکا جس سے مقتدی اس کے سہو پر مطلع ہوا تولاجرم یہ تاخیر بقدرکثیر ہوئی اور جوکچھ ہوناتھا یعنی ترک واجب ولزوم سجدہ سہو وہ ہوچکا اب اس کے بتانے سے مرتفع نہیں ہوسکتا اور اس سے زیادہ کسی دوسرے خلل کا اندیشہ نہیں جس سے بچنے کو یہ فعل کیاجائے کہ غایت درجہ وہ بھول کر سلام پھیردے گا پھر اس سے نماز تو نہیں جاتی وہی سہو کا سہو رہے گا، ہاں جس وقت سلام شروع کرتا اس وقت حاجت متحقق ہوتی اور مقتدی کوبتاناچاہئے تھا کہ اب نہ بتانے میں خلل وفسادنماز کااندیشہ ہے کہ یہ تواپنے گمان میں نماز تمام کرچکا، عجب نہیں کہ کلام وغیرہ کوئی قاطع نماز اس سے واقع ہوجائے، اس سے پہلے نہ خلل واقع کاازالہ تھا نہ خلل آئندہ کااندیشہ، تو سوافضول وبے فائدہ کے کیاباقی رہا، لہٰذا مقتضائے نظر فقہی پر اس صورت میں بھی فسادنماز ہے۔"(فتاوی رضویہ،ج7، ص264، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

   مفتی وقار الدین رحمۃ اللہ علیہ تحریرفرماتےہیں:”ظہر کی نمازمیں غلطی سے امام دو رکعت پر سلام پھیر دے، تو مقتدیوں کو لقمہ دینا چاہیے اور جب مقتدی نے لقمہ دے دیا، تو امام کو نماز پوری کر لینا چاہیے اور آخر میں سجدۂ سہو کرے۔“(وقار الفتاوی، جلد2، صفحہ233، مطبوعہ بزم وقار الدین، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم