جمعہ کے صرف فرض پڑھنے کا حکم

 

جمعہ کے صرف فرض پڑھنے کا حکم

مجیب:مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:Nor-13697

تاریخ اجراء:01شعبان المعظم1446 ھ/31جنوری 2520 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین  اس مسئلے کے بارے میں کہ جو لوگ نمازِ جمعہ کے فقط دو فرض پڑھ کے چلے جاتے ہیں، نہ تو پہلے کی سنتیں پڑھتے ہیں اور نہ ہی بعد کی سنتیں پڑھتے ہیں۔ ان لوگوں  کے بارے میں شرعاً  کیا حکم  ہے؟ کیا ان کا جمعہ ادا ہوجاتا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   سائل کا یہ کہنا کہ لوگ جمعہ کی پہلے کی سنتیں اور بعد کی سنتیں نہیں پڑھتے ، یہاں اولاً تو اس بات کا بھی  امکان موجود ہے کہ وہ لوگ جمعہ کی سنتیں گھر یا آفس ہی میں ادا کرتے ہوں،  لہذا مسلمانوں کے افعال کو حتی الامکان درستگی پرمحمول کرنا شرعاً واجب ہے اور بدگمانی سے بچنا لازم ہے کہ بلا اجازتِ شرعی مسلمانوں سے بدگمان ہوناناجائز و حرام ہے، اس کی شدید مذمت قرآن و حدیث میں مذکور ہے۔

   بالفرض اگر کوئی شخص واقعتاً جمعہ کے فرضوں ہی پر اکتفا کرتا ہو اور جمعہ کی سنتیں اصلاً ادا نہ کرتا ہو، تو اس صورت میں بلاشبہ وہ شخص گنہگار ہوگا کہ جمعہ کے فرضوں سے پہلے کی  چار سنتیں یونہی بعد کی چار سنتیں مؤکدہ ہیں اور سنتِ مؤکدہ کو عادتاً چھوڑنا گناہ ہے، لہذا اُس شخص پر لازم ہوگا کہ اللہ عزوجل کی بارگاہ میں صدقِ دل سے توبہ کرے ۔ جمعہ کے فرضوں کے بعد والی  چار رکعت  کے بعد جو دو سنت ہیں ایک قول کے مطابق وہ بھی سنت مؤکدہ ہیں، اگرچہ مختار یہ ہے کہ غیر مؤکدہ ہیں، لیکن ان کی اہمیت بھی کم نہیں ہے۔یونہی دو  نفل مزید بھی پڑھنے چاہییں، الغرض یہ کہ جمعہ کی آخر کی دو سنتِ غیر مؤکدہ اور نوافل کو چھوڑنے کی عادت بنالینا، اگرچہ گناہ نہیں، مگر ثواب سے محرومی تو ہے، جبکہ  مؤمن تو  ثواب کا حریص ہوتا ہے۔البتہ اس صورت میں  گزشتہ سنتوں  کی قضااُس پر لازم نہیں ہوگی کہ قضا صرف فرض اور واجب نماز ہی کی ہوتی ہے۔ نیز  سنتیں ادا کیے بغیر فقط فرض پڑھ لینے سے بھی اُس کا جمعہ ادا ہوجائے گا۔

   مسلمانوں کے افعال کو درستگی  پر محمول کرنا واجب ہے، جیسا کہ فتاوٰی رضویہ میں ہے:” مسلمان کا فعل حتی الامکان محملِ حسن پر محمول کرنا واجب اور بدگمانی ریا سے کچھ کم حرام نہیں۔(فتاوٰی رضویہ،ج 05،ص 324،رضافاؤنڈیشن، لاھور)

   مزید ایک دوسرے مقام پر سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ اس سے متعلق  ارشاد فرماتے ہیں:” مسلمانوں کا کام حتی الامکان صلاح پر محمول کرنا واجب۔(فتاوٰی رضویہ،ج 16،ص 476،رضافاؤنڈیشن، لاھور)

   جمعہ کے فرضوں سے پہلے اور بعد چار رکعت ایک سلام کے ساتھ پڑھنا سنتِ مؤکدہ ہے، جیسا کہ درر الحکام شرح غرر الاحکام وغیرہ کتبِ فقہیہ میں مذکور ہے:”(سن ) سنة مؤكدة۔۔۔۔( أربع بتسليمة) ۔۔۔۔( قبل الظهر والجمعة وبعدها ) أي الجمعة“یعنی جمعہ سے پہلے، یونہی جمعہ کے بعد چار رکعت ایک سلام کے ساتھ پڑھنا سنتِ مؤکدہ ہے۔(درر الحکام شرح غرر الاحکام ،کتاب الصلاۃ،ج01،ص115،داراحیاء الکتب العربیہ، ملتقطاً)

   تنویر الابصار مع الدرالمختار میں ہے:”(وسن) مؤكدا (أربع قبل الظهر و) أربع قبل (الجمعة و) أربع (بعدها بتسليمة) فلو بتسليمتين لم تنب عن السنة یعنی ظہر اور  جمعہ سے پہلے، یونہی  جمعہ کے بعد چار رکعت ایک سلام کے ساتھ پڑھنا سنت مؤکدہ ہے ۔ لہذا اگر دو سلام سے پڑھی تو یہ چار رکعت سنتِ مؤکدہ کے قائم مقام نہیں ہوں گی۔(الدر المختار مع الرد المحتار، کتاب الصلاۃ، ج 02، ص 545، مطبوعہ کوئٹہ)

    سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ جمعہ کی سنتوں سے متعلق کیے گئے سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں:”دس سنتیں ہیں۔چار پہلے ، چار بعد ۔۔۔اور دو بعد کو اور ،کہ بعدِ جمعہ چھ سنتیں ہونا ہی حدیثاً وفقہاً  اَثْبَت واَحْوَط ، مختار ہے، اگرچہ چار کہ ہمارے ائمہ میں متفَق علیہ ہیں ، ان دو سے مؤکد تَر ہیں۔(فتاوٰی رضویہ،ج 08،ص 292،رضافاؤنڈیشن، لاھور، ملتقطاً)

   بہارِ شریعت میں ہے:” سنت مؤکدہ یہ ہیں۔ ۔۔۔چار جمعہ سے پہلے، چار بعد یعنی جمعہ کے دن جمعہ پڑھنے والے پر چودہ رکعتیں ہیں اور علاوہ جمعہ کے باقی دنوں میں ہر روز بارہ رکعتیں۔ (بھارِ شریعت، ج 01، ص 663، مکتبۃ المدینہ، کراچی، ملتقطاً)

   سنتِ مؤکدہ کو عادتاً ترک کرنا گناہ ہے جیسا کہ فتاوٰی رضویہ میں ہے:”سنتِ مؤکدہ کا ترک مطلقاً  گناہ نہیں، بلکہ اس کے ترک کی عادت گناہ ہے۔(فتاوٰی رضویہ،ج 01،ص 903،رضافاؤنڈیشن، لاھور)

   ایک دوسرے مقام پر  سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ ارشاد فرماتے ہیں:”سنتِ مؤکدہ کے ایک آدھ بار ترک سے اگرچہ گناہ نہ ہو، عتاب ہی کااستحقاق ہو، مگربارہا ترک سے بلاشبہ گنہگار ہوتا ہے۔(فتاوٰی رضویہ،ج 01،ص 596، رضافاؤنڈیشن، لاھور)

   بہارِ شریعت میں ہے:” ترکِ سنّتِ مؤکدہ کی عادت ڈالی تو گنہگار ہے۔(بھارِ شریعت، ج 01، ص 296، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   قضا صرف فرض اور واجب نماز کی ہوتی ہے، سنتوں اور نفل کی قضا نہیں ہوتی۔ جیسا کہ سید ی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ فتاوٰی رضویہ میں ارشاد فرماتے ہیں:” اقول وباﷲ التوفیق تحقیق مقام و تنفیح مرام  یہ ہے کہ حقیقۃ قضانہیں، مگر فرض یا واجب کی۔۔۔۔باقی نوافل وسنن اگرچہ مؤکدہ ہوں مستحق قضا نہیں کہ شرعاً لازم ہی نہ تھی،جو بعد فوت ذمہ پرباقی ر ہیں’’فی الھدایۃ الاصل فی السنۃ ان لاتقضی لاختصاص القضاء بالواجب  اھ  وتمام تحقیقہ فی الفتح۔(فتاوٰی رضویہ،ج08،ص 148-147،رضافاؤنڈیشن، لاھور، ملتقطاً)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم