
مجیب:مولانا اعظم عطاری مدنی
فتوی نمبر:WAT-3694
تاریخ اجراء:25 رمضان المبارک1446 ھ/26 مارچ 2025 ء
دار الافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا مغرب کا وقت اندھیرا ہوتے ہی ختم ہوجاتا ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
مغرب کا وقت اندھیرا ہوتے ہی ختم نہیں ہوتا بلکہ مغرب کی جانب سرخی اور اس کے بعد نظر آنے والی سفیدی بھی ختم ہوجائے تو اس وقت مغرب کی نماز کا وقت ختم ہوتا ہے ہاں نما زمغرب کی ادائیگی میں وقت مغرب شروع ہونے کے بعد جلدی کرنی چاہئے مغرب کی نماز ہمیشہ یعنی سردی و گرمی میں غروب آفتاب کے بعد جلدی پڑھنا مستحب ہے، اس میں دو رکعت پڑھنے کی مقدار سے زیادہ کی بلا عذر تاخیر مکروہ تنزیہی اور اتنی تاخیر کہ چھوٹے چھوٹے ستارے بھی نظر آنے لگیں مکروہ تحریمی ہے۔
سنن ابی داؤدمیں ہے،حضرت ابومسعودانصاری رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں: "سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول: «نزل جبريل صلى الله عليه و سلم فأخبرني بوقت الصلاة فصليت معه، ثم صليت معه، ثم صليت معه، ثم صليت معه، ثم صليت معه» يحسب بأصابعه خمس صلوات. «فرأيت رسول الله صلى الله عليه و سلم صلى الظهر حين تزول الشمس، و ربما أخرها حين يشتد الحر، و رأيته يصلي العصر والشمس مرتفعة بيضاء قبل أن تدخلها الصفرة۔۔۔۔۔ و يصلي المغرب حين تسقط الشمس، ويصلي العشاء حين يسود الأفق، و ربما أخرها حتى يجتمع الناس" ترجمہ: میں نے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم کوفرماتے سنا: جبریل (علیہ الصلوۃ و السلام)آئے توانہوں نے مجھے نمازکے وقت کے متعلق بتایا، پس میں نے ان کے ساتھ نمازپڑھی، پھران کے ساتھ نمازپڑھی، پھران کے ساتھ نماز پڑھی، پھر ان کے ساتھ نمازپڑھی، پھر ان کے ساتھ نماز پڑھی، آپ علیہ الصلوۃ و السلام اپنی انگلیوں کے ساتھ پانچ نمازیں شمارفرمارہے تھے، پس میں نے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم کودیکھاکہ ظہرکی نمازسورج ڈھلنے کے وقت ادافرمائی اوربسااوقات جب گرمی سخت ہوتی تواسے موخرفرماتے اورمیں نے آپ علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھا کہ عصرکی نمازاس وقت ادافرماتے جبکہ سورج بلند،سفیدہوتاابھی اس میں زردی داخل نہ ہوئی ہوتی، اور مغرب ادا فرماتے سورج غروب ہونے کے وقت اورعشاء اس وقت ادافرماتے جب افق سیاہ ہوجاتااوربسااوقات لوگوں کے اکٹھے ہونےتک موخرفرماتے۔ (سنن ابی داؤد، باب فی المواقیت، ج 01، ص 107، المکتبۃ العصریۃ، بیروت)
ہدایہ میں ہے "و أول وقت المغرب إذا غربت الشمس و آخر وقتها مالم يغب الشفق"۔۔۔۔ ثم الشفق هو البياض الذي في الأفق بعد الحمرة عند أبي حنيفة رحمه الله تعالى۔۔۔۔ و لأبي حنيفة رحمه الله تعالى قوله عليه الصلاة و السلام "و آخر وقت المغرب إذا اسود الأفق" ترجمہ: مغرب کے وقت کی ابتدا اس وقت ہوتی ہے جب سورج غروب ہوجائے اور اس کاآخری وقت اس وقت تک باقی ہے جب تک شفق غروب نہیں ہوجاتا۔ امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک شفق سے مراد وہ سفیدی ہے جو افق میں سرخی کے بعد باقی رہتی ہے اور اس کی دلیل یہ فرمان رسول علیہ الصلاۃ و السلام ہے کہ مغرب کاآخری وقت تب ہے جب افق سیاہ ہوجائے۔ (ہدایہ، جلد 1، صفحہ 40، دار احياء التراث العربي، بيروت)
در مختار میں ہے "و المستحب۔۔۔ تعجیل مغرب مطلقاً و تأخیرہ قدر رکعتین یکرہ تنزیھاً" ترجمہ: اور مغرب میں ہمیشہ جلدی کرنا مستحب ہے اور دورکعتوں کی مقدار تاخیر مکروہ تنزیہی ہے۔
اس کے تحت علامہ شامی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں: ”أن المراد بالتعجیل أن لا یفصل بین الأذان و الإقامۃ بغیر جلسۃ أو سکتۃ علی الخلاف، و أن ما فی ’’القنیۃ‘‘ من استثناء التأخیر القلیل محمول علی مادون الرکعتین، و أن الزائد علی القلیل إلی اشتباک النجوم مکروہ تنزیھاً، و ما بعدہ تحریماً إلا بعذر کما مر‘‘ ترجمہ: جلدی کرنےسے مراد یہ ہے کہ اذان اور اقامت کے درمیان بغیر بیٹھے یا بغیرسکتہ کے فاصلہ نہ کرے، اور جو ’’قنیہ‘‘ میں تھوڑی تاخیر کا استثناء ہے، وہ دو رکعتوں سے کم پر محمول ہے، اور جو اس قلیل سےزائد، ستاروں کے گتھ جانے تک تاخیر ہے، وہ مکروہ تنزیہی ہے، اور اس کے بعد مکروہ تحریمی ہے، مگریہ کہ عذر کی بنا پر ہو (تو مکروہ تحریمی نہیں)، جیسا کہ پیچھے گزرا۔ (درمختار مع رد المحتار، جلد2، صفحہ 35، مطبوعہ: کوئٹہ)
بہار شریعت میں ہے ”وقت مغرب: غروب آفتاب سے غروب شفق تک ہے۔ شفق ہمارے مذہب میں اس سپیدی کا نام ہے، جو جانب مغرب میں سُرخی ڈوبنے کے بعد جنوباً شمالاً صبح صادق کی طرح پھیلی ہوئی رہتی ہے۔“ (بہار شریعت، جلد1، حصہ 3، صفحہ 450،451، مکتبۃ المدینہ)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم