
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ اوابین کے لیے مغرب کے فرض کے بعد دو سنت، دو نفل اور دو نفل پڑھیں، یا مغرب کی پوری نماز (تین فرض، دو سنت اور دو نفل) پڑھ کر پھر چھ نفل پڑھیں، کیا دونوں طریقے درست ہیں اور ان میں سے افضل کون سا ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
نماز مغرب کے فرض پڑھنے کے بعد دو رکعت سنت مؤکدہ اور چار رکعت نفل یعنی کم از کم چھ رکعتیں پڑھنا مستحب ہے، اسی کو نماز اوابین کہتے ہیں، جس کی فضیلت احادیث طیبہ میں بیان کی گئی ہے۔ ان چھ رکعتوں پر مزید نوافل ملا کر اضافہ کیا جا سکتا ہے، جو کہ اوابین ہی میں شمار ہوں گے، حتی کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے بیس رکعت تک نماز اوابین مروی ہے۔ پس سوال میں بیان کردہ دونوں طریقے درست ہیں؛ کہ اوابین کی فضیلت دونوں صورتوں میں حاصل ہو جائے گی۔ نیز دوسرے طریقے میں مشقت اور ثواب زیادہ ہے لہذا ان دونوں میں سے یہ افضل ہوگا؛ کیونکہ عبادات میں سے افضل عبادت وہ ہوتی ہے، جس میں مشقت زیادہ ہو۔
جامع ترمذی، سنن ابن ماجہ، مسند ابی یعلی، مشکوۃ المصابیح اور کنز العمال وغیرہ میں حدیث پاک ہے:
”عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: من صلى بعد المغرب ست ركعات لم يتكلم فيما بينهن بسوء عدلن له بعبادة ثنتي عشرة سنة“
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص مغرب کے بعد چھ رکعتیں پڑھے، جن کے درمیان کوئی بری بات نہ کرے تو یہ اس کے لیے بارہ سال کی عبادت کے برابر ہوں گی۔ (جامع ترمذي، أبواب الصلاة، باب ما جاء في فضل التطوع...، جلد 1، صفحہ 456، حدیث 435، دار الغرب الإسلامي، بيروت)
جامع ترمذی، سنن ابن ماجہ، مشکوۃ المصابیح وغیرہ کی حدیث پاک میں ہے:
و اللفظ للاول”عن عائشة، عن النبي صلى الله عليه و سلم قال: من صلى بعد المغرب عشرين ركعة بنى الله له بيتا في الجنة“
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے مغرب کے بعد بیس رکعتیں پڑھیں، اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں گھر بنائے گا۔ (جامع ترمذي، أبواب الصلاة، باب ما جاء في فضل التطوع ...، جلد 1، صفحہ 456، دار الغرب الإسلامي، بيروت)
علامہ نور الدین ملا علی قاری حنفی رحمۃ اللہ تعالی علیہ (سال وفات: 1014ھ / 1605ء) مذکورہ احادیث مبارکہ کے تحت لکھتے ہیں:
المفهوم أن الركعتين الراتبتين داخلتان في الست و كذا في العشرين المذكورة في الحديث... و قال ابن حجر: و فيها حديث آخر و هو أنه عليه السلام كان يصليها عشرين و يقول: "هذه صلاة الأولین فمن صلاها غفر له" و كان السلف الصالح يصلونها
ترجمہ: مفہوم یہ ہے کہ (مغرب کے بعد کی) دو رکعت سنت مؤکدہ اوابین کی چھ رکعتوں میں شامل ہیں اور اسی طرح اوابین کی بیس رکعتوں میں بھی، جن کا ذکر (دوسری) حدیث میں ہے۔ علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا: اس بارے میں ایک اور حدیث بھی ہے، اور وہ یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اوابین کی بیس رکعتیں پڑھا کرتے تھے اور ارشاد فرماتے: "یہ اولین کی نماز ہے، پس جو یہ نماز پڑھے گا اس کی مغفرت کر دی جائے گی" اور سلف صالحین اسے ادا کیا کرتے تھے۔(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح ، كتاب الصلاة ، باب السنن و فضائلها، جلد 3، صفحه 894، دار الفكر، بيروت)
علامہ عبد الرحمن بن محمد شیخی زاده داماد آفندی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 1078ھ / 1667ء) لکھتے ہیں:
و الست بعد المغرب تسمى صلاة الأوابين... هذا يدل على أن ركعتي المغرب محسوبة من الست
ترجمہ: اور مغرب کے بعد چھ رکعتیں پڑھنا مستحب ہے، جو کہ نمازِ اوّابین کہلاتی ہیں۔ یہ (اول الذکر حدیث پاک) اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ مغرب کی دو رکعت (سنت مؤکدہ) ان چھ رکعتوں میں شمار ہوتی ہے۔ (مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر، کتاب الصلاة، فصل في النوافل، جلد 1، صفحه 131، دار إحياء التراث العربي)
علامہ علاؤ الدین محمد بن علی حصکفی رحمۃ اللہ تعالی علیہ (سال وفات: 1088 ھ / 1677 ء) لکھتے ہیں:
و ست بعد المغرب ليكتب من الأوابين بتسليمة أو ثنتين أو ثلاث
ترجمہ: مغرب کے بعد چھ رکعتیں مستحب ہیں، تاکہ بندہ اوابین (اللہ پاک کی طرف رجوع کرنے والوں)میں سے لکھا جائے، خواہ ایک سلام کے ساتھ پڑھے یا دو کے ساتھ یا تین کے ساتھ۔ (الدر المختار شرح تنویر الابصار، کتاب الصلاة، باب الوتر و النوافل، صفحه 91، دار الکتب العلمیة، بیروت)
صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ تعالی علیہ (سال وفات: 1367ھ / 1948ء) لکھتے ہیں: ”بعد مغرب چھ رکعتیں مستحب ہیں، ان کو صلاۃ الاوّابین کہتے ہیں، خواہ ایک سلام سے سب پڑھے یا دو سے یا تین سے، اور تین سلام سے یعنی ہر دو رکعت پر سلام پھیرنا افضل ہے۔ ظہر و مغرب و عشا کے بعد جو مستحب ہے اس میں سنت مؤکدہ داخل ہے، مثلاً ظہر کے بعد چار پڑھیں تو مؤکدہ و مستحب دونوں ادا ہو گئیں اور یوں بھی ہو سکتا ہے کہ مؤکدہ و مستحب دونوں کو ایک سلام کے ساتھ ادا کرے یعنی چار رکعت پر سلام پھیرے۔“ (بہار شریعت، جلد 1، حصہ 5، صفحہ 666- 667، مکتبة المدینہ، کراچی)
مفتی محمد وقار الدین قادری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 1413 ھ / 1993 ء) لکھتے ہیں: ”مغرب کے فرض پڑھنے کے بعد کم از کم چھ رکعتیں پڑھنا مستحب ہے، ان کو "اوابین“ کہتے ہیں۔ یہ چھ رکعتیں خواہ ایک سلام سے یا دو سے یا تین سلام سے پڑھ سکتے ہیں، (البتہ) تین سلام سے پڑھنا افضل ہے، یعنی ہر دو رکعت پر سلام پھیرے۔ مغرب کے فرض کے بعد دو رکعت سنت مؤکدہ ”اوابین“ کے نفل کے ساتھ ملا کر پڑھ سکتے ہیں۔ اس میں مطلق نماز کی نیت بھی کی جا سکتی ہے، اور سنت کی بھی۔ صلاة اوابین کی کم از کم چھ رکعات ہیں اور ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ بنت صدیق رضی اللہ عنہما کی روایت کے مطابق بیس رکعتیں ہیں۔“ ( وقار الفتاوی، جلد 2، صفحہ 230، بزم وقار الدین،کراچی)
حدیث پاک میں آتا ہے:
أفضل العبادات أحمزها
ترجمہ: عبادات میں سے افضل عبادت وہ ہے، جو زیادہ زحمت والی ہو۔ (المقاصد الحسنة، حرف الهمزة، جلد 1، صفحہ 130، دار الكتاب العربي، بيروت)
امام اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ (سال وفات: 1340ھ / 1921ء) لکھتے ہیں: ”پھر جیسی مشقت ویسا ہی اجر، اور جتنی خدمت اتنی ہی قدر،
افضل العبادات احمزھا
(سب سے افضل عبادت وہ ہے جس میں مشقت زیادہ ہو)۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 30، صفحہ 145- 146، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتویٰ نمبر: FAM-774
تاریخ اجراء: 08 ذو الحجۃ الحرام 1446ھ / 5 جون 2025ء