مجنون کی قضا نمازوں کے فدیے کا شرعی حکم

جنون کی حالت میں جو نمازیں رہ گئیں، ان کے فدیہ کا حکم

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

میری خالہ 60 سال تک مسلسل نمازیں پڑھتی رہی ہیں ،پھر اس کے بعد ان کا چودہ (14) ماہ ذہنی توازن درست نہ رہا یعنی وہ جنون کی حالت میں رہیں اور وفات تک وہ اسی حالت میں رہیں اور ابھی فوت ہوگئی ہیں، تو ہم ان کی 14 ماہ کی نمازوں کا فدیہ کیسے دیں؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں اگر آپ کی خالہ 14 ماہ مسلسل جنون (پاگل پن) کی حالت میں ہی رہیں اور ان کو کبھی بھی افاقہ نہ ہوا، تو ان کی قضا شدہ نمازوں پر فدیہ نہیں ہے، کیونکہ جب کسی شخص کو جنون (پاگل پن) لاحق ہو اور وہ مسلسل پانچ نمازوں سے زیادہ کا وقت گھیر لے اور اس دوران اس کو افاقہ نہ ہو، تو اس شخص پر اس دوران قضا شدہ نمازوں کی قضا لازم نہیں ہوتی اور جب تک یہ جنون رہے، اس وقت تک کی نمازیں اس سے معاف ہوتی ہیں، لہذا جب ان سے نمازیں معاف ہیں، تو ان نمازوں کا فدیہ بھی نہیں ہے۔

الآثارلابی یوسف میں ہے

" قال: و ثنا يوسف عن أبي يوسف عن أبي حنيفة، عن حماد، عن إبراهيم، في رجل أغمي عليه يوما و ليلة، فقال: ابن عمر رضي الله عنهما كان يقول: «يقضي ذلك، و إن أغمي عليه أكثر من ذلك لم يقض»"

ترجمہ: حضرت ابراہیم نخعی علیہ الرحمۃ سے اس شخص کے متعلق سوال کیا گیا، جس پرایک دن اور ایک رات بیہوشی طاری ہوئی توآپ علیہ الرحمۃ نے فرمایا: حضرت ابن عمررضی اللہ تعالی عنہمافرماتے تھے: یہ شخص ان کی قضا کرے گا، اور اگر اس پراس زیادہ بیہوشی طاری ہو تو قضا نہیں کرے گا۔ (الآثار لابی یوسف، حدیث نمبر: 282، ص 57، دار الکتب العربیۃ، بیروت)

درِ مختار میں ہے

"و لو مات و علیہ صلوات فائتۃ اوصی بالکفارۃ یعطی لکل صلاۃ نصف صاع من بر"

ترجمہ: اور اگر کوئی شخص فوت ہوا اور اس پرفوت شدہ نمازیں لازم تھیں، اس نے کفارے کی وصیت کی تو ہر نماز کے بدلے نصف صاع گندم بطورِ فدیہ دی جائے گی۔

"و علیہ صلوات فائتۃ"

کے تحت رد المحتار میں ہے:

ای: بان کان یقدر علی ادائھا و لو بالایماء، فیلزمہ الایصاء بھا و الا فلا یلزمہ

ترجمہ: (اس کے ذمہ فوت شدہ نمازیں ہونے سے مراد یہ ہے کہ) اگر وہ نمازکی ادائیگی پر قادر تھا اگرچہ اشارے کے ساتھ ، تو اس پر نمازکےکفارے کی وصیت کرنا لازم ہے، ورنہ (یعنی اگر کسی بھی طرح نماز ادا کرنے پر قادر ہی نہیں تھا) تو وصیت لازم نہیں۔(الدر المختار مع رد المحتار، جلد 2، صفحہ 643، 644، مطبوعہ کوئٹہ)

فتاوی ہندیہ میں ہے

فلا قضاء علی مجنون حالۃ جنونہ

ترجمہ: پس مجنون پر اس کی حالتِ جنون میں قضا لازم نہیں۔ (فتاوی ہندیہ، جلد 1، صفحہ 121، مطبوعہ دار الفکر، بیروت)

فتاوی رضویہ میں ہے" مسلوب الحواسی کی اعلیٰ قسم تو جنون ہے،والعیاذباللہ منہ۔۔۔ شریعت مطہرہ اس کے اوپر سے اپنی تکلیفیں اٹھالیتی ہے اور نماز وروزہ تک اس کے اوپر فرض نہیں رہتا۔" (فتاوی رضویہ، جلد 19، صفحہ 619 ، 620، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

بہارِ شریعت میں ہے "ایسا مریض کہ اشارہ سے بھی نماز نہیں پڑھ سکتا اگر یہ حالت پورے چھ وقت تک رہی تو اس حالت میں جو نمازیں فوت ہوئیں ان کی قضا واجب نہیں۔" (بہارِ شریعت، جلد 1، حصہ 4، صفحہ 702، مکتبۃ المدینہ)

بہارشریعت میں ہے "جنون یا بے ہوشی اگر پورے چھ وقت کو گھیرلے تو ان نمازوں کی قضا بھی نہیں، اگرچہ بے ہوشی آدمی یا درندے کے خوف سے ہو اور اس سے کم ہو تو قضا واجب ہے۔" (بہارشریعت، ج 01، حصہ 04، ص 723، مکتبۃ المدینہ)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد فراز عطاری مدنی

فتویٰ نمبر: WAT-3956

تاریخ اجراء: 27 ذو الحجۃ الحرام 1446 ھ / 24 جون 2025 ء