اگر مقتدی صرف عورتیں ہوں تو کیا مرد امام بن سکتا ہے؟

مقتدیوں میں صرف عورتیں ہوں تو مرد ان کو جماعت کروا سکتا ہے؟

مجیب:مفتی محمد  قاسم عطاری

فتوی نمبر:FAM-674

تاریخ اجراء:23 شعبان المعظم 1446 ھ/22 فروری 2025 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں  کہ رمضان المبارک میں مرد امام ہو اور مقتدی سب عورتیں ہوں اور  مرد یعنی امام ایک ہی گھر میں پہلے کمرے میں ہو اور اس کے پیچھے ساتھ کمرے میں عورتیں مقتدی ہوں، تو کیا اس طرح عورتیں،مرد امام کے پیچھے جماعت کے ساتھ نما زپڑھ سکتی ہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   مذکورہ صورت کی تفصیل میں جائے بغیرحکمِ شرعی یہ ہے کہ  عورتوں کے لیے کسی بھی نماز میں جماعت کی حاضری جائز نہیں، خواہ یہ جماعت مسجد میں ہو یا کسی گھر یا ہال وغیرہ میں، رمضان میں ہو یا رمضان کے علاوہ میں،فرض نماز ہو یا تراویح، صلاۃ التسبیح، یا  عام نوافل، چاہے عورتیں جوان ہوں یا بوڑھیاں، بہر صورت ان کا جماعت میں شرکت کرنا، ناجائز  ہے۔ سوائے اس صورت کے کہ ایک ہی  گھر میں بہت سی  عورتوں  کا جمع ہوکر  مرد امام  کے پیچھے نماز پڑھنا، اگر تو وہ سب عورتیں اس  مرد امام  کی محارم ہوں، یا  ان میں بعض  عورتیں  مرد کی محارم  ہوں  اور بعض   اجنبیہ ہوں، تو چند شرائط و قیودات کے ساتھ  اس کی گنجائش ہوسکتی ہے،  لیکن اگرسب عورتیں اجنبیہ ہوں تو مرد کا ان کی امامت کرنا، جائز نہیں۔ بہرحال رمضان ہو یا رمضان کے علاوہ، عورتوں کو چاہئے کہ وہ اپنے  اپنے گھروں میں ہی   نمازیں  ادا کریں، یہی ان کے لیے زیادہ  بہتراور فضیلت کا باعث بھی  ہے۔

   بخاری شریف کی حدیث مبارک ہے: عن عائشة رضي اللہ عنها، قالت:  لو ادرک رسول ﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم ما احدث النساء لمنعھن المسجد کما منعت نساء بنی اسرائیل“ ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، فرماتی ہیں، جو چیزیں عورتوں نے اب شروع کردی  ہیں،اگر حضور صلی اللہ علیہ و سلم اسے ملاحظہ فرماتے ،تو ضرور اُنہیں مسجد میں آنے سے منع فرمادیتے، جیسا کہ بنی اسرائیل کی عورتوں کو منع کردیا گیا۔ (صحیح البخاری، جلد 1، صفحہ173 ، رقم الحدیث:  869، دار طوق النجاة)

   حدیث کی شرح میں علامہ بدر الدین عینی رحمۃ اللہ علیہ  عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری میں فرماتے ہیں : ”قولہ "ما أحدث النساء" أي ما أحدثت من الزينة و الطيب و حسن الثياب و نحوها (قلت) لو شاهدت عائشة رضي اللہ تعالى عنهما ما أحدث نساء هذا الزمان من أنواع البدع و المنكرات لكانت أشد إنكارا“  ترجمہ : سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا  کا فرمان  کہ ’’جو چیزیں عورتوں نے اب شروع کردی ہیں‘‘ یعنی زیب و زینت، خوشبو اور عمدہ لباس وغیرہ پہن کر مسجد آنا۔ میں کہتا ہوں: اگر سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا  وہ ملاحظہ فرما لیتی، جو کچھ اب ہمارے زمانے کی عورتوں نے پیدا کر لیا ہے ، یعنی طرح طرح کی بدعات و خرافات ، تو ا ن کا انکار اور عورتوں کو مسجد سے منع کرنا اورشدید قسم کا ہوتا۔ (عمدۃ القاری، جلد 6، کتاب مواقیت الصلاۃ، صفحہ 158، دار إحياء التراث العربي، بیروت)

   عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری میں ہی  ہے: ’’قال ابن مسعود: المرأۃ عورۃ، و أقرب ما تکون الی اللہ  فی قعر بیتھا، فاذا خرجت استشرفھا  الشیطان‘‘ ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ  نے ارشاد فرمایا: عورت چھپانے کی چیز ہے، اور وہ اللہ تعالی کے سب سے زیادہ قریب اپنے گھر کے گوشے میں ہوتی ہے، جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیطان اسے جھانک کر دیکھتا ہے۔(عمدۃ القاری، جلد 6، صفحہ 157، دار إحياء التراث العربي، بيروت)

   ابو داؤد شریف کی حدیث میں  ہے :’’عن عبد اللہ عن النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلم قال : صلاۃ المرأۃ فی بیتھاافضل من صلاتھا فی حجرتھا وصلاتھا فی مخدعھا افضل من صلاتھا فی بیتھا “ ترجمہ: حضرت عبداﷲ بن مسعود  رضی اللہ عنہ  سے راویت ہے کہ حضور صلی  اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشادفرمایا : عورت کا گھر میں نماز پڑھنا، صحن میں پڑھنے سے بہتر ہے اور کوٹھری میں پڑھنا، گھر میں پڑھنے سے بہتر ہے۔(سنن ابی داؤد، جلد 1، صفحہ 156، رقم الحدیث: 570، مكتبه عصريه، بیروت)

   مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہاس حدیث پاک کی شرح میں فرماتے ہیں: ’’مخدع سامان کی کوٹھڑی کو کہتے ہیں یہ خدع سے ہے، بمعنی چھپانا اور ’’بیت‘‘ رہنے کی کوٹھڑی کو کہتے ہیں بیتوتت سے ہے، بمعنی شب گزارنا، سامان کی کوٹھڑی دوسری کوٹھڑی کے پیچھے ہوتی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ چونکہ عورے کیلئے پردہ بہت اعلی ہے لہذا جس قدر پردے میں نماز پڑھے گی اسی قدر بہتر ہوگا۔‘‘ (مراۃ المناجیح، جلد 2، صفحہ 156، نعیمی کتب خانہ گجرات)

   تنویر الابصار مع درمختار میں ہے:(و يكره حضورهن الجماعة) و لو لجمعة و عيد و وعظ (مطلقا) و لو عجوزا ليلا (على المذهب) المفتى به لفساد الزمان ترجمہ: اور عورتوں کا جماعت میں شریک ہونامفتیٰ بہ مذہب کےمطابق فسادِ زمانہ کی وجہ سے مطلقاً مکروہ (تحریمی) ہے، اگرچہ نمازِ جمعہ و عیدین یا مجلسِ وعظ ہی ہو، اگرچہ عورتیں بوڑھی ہوں، اگرچہ رات کی نمازیں ہوں۔ (تنویر الابصار مع درمختار، جلد 2، کتا ب الصلاۃ، صفحہ 367، دار المعرفۃ، بیروت)

   بہار شریعت میں ہے: ’’عورتوں کو کسی نماز میں جماعت کی حاضری جائز نہیں، دن کی نماز ہو یا رات کی، جمعہ ہو یا عیدین، خواہ وہ جوان ہوں یا بڑھیاں۔۔۔ جس گھر میں عورتیں ہی عورتیں ہوں، اس میں مرد کو ان کی اِمامت ناجائز ہے، ہاں اگر ان عورتوں میں اس کی نسبی محارم ہوں یا بی بی یا وہاں کوئی مرد بھی ہو، تو ناجائز نہیں۔‘‘ (بھارِ شریعت، جلد 1، حصہ 3، صفحہ 584، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم