مسجد کی بجلی سے امام اور دوسرے لوگوں کا موبائل چارج کرنا

مسجد کی بجلی سے امام اور دوسرے لوگوں کا موبائل چارج کرنا

دارالافتاء اھلسنت عوت اسلامی)

سوال

مسجد کی بجلی چندے سے چلتی ہے، کیا اس میں امام یا مؤذن موبائل چارج کر سکتے ہیں، اور  دوسروں کو بھی اجازت دے سکتےہیں ؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

امام و مؤذن حضرات  تو  مسجد کی بجلی سے اپنا موبائل چارج کرسکتے ہیں،کیونکہ  مسجد  کی بجلی  مسجد کی ضروریات اور مصالح کےلیے  ہوتی ہے اور امام و مؤذن مسجد کے مصالح و ضروریات   میں سے ہیں،لہذا ان کی  معقول ضروریات،  مسجد کی ضرور یات  ہی ہوں گی،مزید  یہ کہ مسجد کی بجلی کو امام ومؤذن حضرات کے اپنی ضروریات و سہولیات میں استعمال کرنے  پر عُرف بھی ہے۔البتہ! عام نمازی  حضرات کو مسجد کی بجلی سے موبائل چارج کرنے کی ہرگز اجازت نہیں ،کیونکہ عام نمازیوں کا مسجد کی بجلی سے موبائل چارج کرنا،مسجد کی بجلی کو خلافِ مَصرف میں استعمال کرنا ہےجو کہ    شرعاً  ناجائز  و گناہ ہے،  لہذا امام یا مؤذن  دوسروں کو مسجد کی بجلی سے  موبائل چارج کرنے کی ہرگز   اجازت    نہیں دے سکتے ،اگر دیں گے تو  گنہگار ہوں۔

البتہ!اعتکاف کی صورت اوروہ مسجدجہاں مدنی قافلے آتے رہتے ہیں ،جس کی وجہ سے ان کامسجدکی بجلی سے موبائل چارج کرنامعروف ہوتاہے ،ان کامعاملہ اس سے جداہے ۔

امام و مؤذن حضرات مسجد کے مصالح و ضروریات سے ہیں ،چنانچہ بحر الرائق میں ہے:

 ” السادسۃ :فی بیان من یقدم مع العمارۃ وھو مسمی فی زماننا بالشعائر ولم ارہ الا فی الحاوی القدسی ، قال والذی یبتدأ بہ من ارتفاع الوقف عمارتہ شرط الواقف أم لا ، ثم ما ھو أقرب الی العمارۃ واعم للمصلحۃ کالاما م للمسجد والمدرس للمدرسۃ یصرف الیھم الی قدر کفایتھم، ثم السراج والبساط کذلک الی آخر المصالح “

ترجمہ : چھٹی بحث ان مصالح کے بیان میں ہے جنہیں عمارتِ وقف کے ساتھ   دیگر مصالح پر مقدم کیا جاتاہے ، اور انہیں ہمارے زمانے میں  شعائر کے نام سے  موسوم کیا جاتاہے ۔اور  میں نے یہ بحث حاوی  قدسی کے علاوہ کہیں نہ دیکھی ، صاحب  حاوی القدسی فرماتے ہیں کہ  وقف کا سب سے پہلا مصرف عمارت وقف ہے چاہے واقف نے اس کی شرط کی ہویا نہ کی ہو ، پھر اس کے بعد وہ جوعمارت  سے قریب  تر ہے ، اور  جو مصلحت (فائدے) کے اعتبار سے زیادہ عام ہےجیسا کہ امام مسجد اور مدرسے کے مدرس ،  تو انہیں بقدر کفایت، مالِ وقف سے دیا جائے گا، پھر اس کے بعد مسجد کے چراغ اور  چٹائیوں اور دیگر مصالح پر چندہ صرف ہوگا ۔ ( البحر الرائق ، جلد 5،  صفحہ 230، دار الكتاب الإسلامي،بیروت)  

عام نمازیوں   کا مسجد کی بجلی کو  اپنے  ذاتی  استعمال میں لانا  شرعاً ہرگز  جائز نہیں، چنانچہ مسجد کے چراغ سے متعلق فتاوی ہندیہ میں ہے :

’’متولی  المسجد لیس لہ ان یحمل سراج المسجد الی بیتہ‘‘

 ترجمہ:مسجد کے متولی کے لئے  (بھی)یہ جائز نہیں کہ وہ  مسجد کا چراغ  اپنے گھر لے جائے ۔ (الفتاوی الھندیۃ، جلد  2، کتاب الوقف،صفحہ 462،دار الفکر، بیروت)

وقار الفتاوی میں مفتی وقار الدین رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:"مسجد کی بجلی یا کسی اور چیز کا استعمال، مسجد کی ضرورتوں کے علاوہ کسی شخص کیلئے بھی  جائز نہیں ہے۔" (وقار الفتاوی،جلد 2،صفحہ 334،بزم وقار الدین،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا عبدالرب شاکر عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3893

تاریخ اجراء:02ذوالحجۃالحرام1446ھ/30مئی2025ء