
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اِس مسئلے کے بارے میں کہ کیا یہ بات درست ہے کہ جو شخص مسجدِ قباء شریف میں دو رکعت نفل ادا کرے، اُسے عمرے کے برابر ثواب حاصل ہوتا ہے؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
جی ہاں! جو شخص مسجد قباء شریف حاضر ہو اور دو رکعت نفل ادا کرے، تو اُسے ایک عمرہ کے برابر اَجْر و ثواب حاصل ہونے کی بشارت ہے۔
چنانچہ امام ابو عبد الله محمد بن يزيد قُزوَینی رَحْمَۃُاللہ تَعَالیٰ عَلَیْہِ(سالِ وفات: 273 ھ/ 887 ء) فرمانِ مصطفیٰ صَلَّی اللہ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ روایت کرتے ہیں:
’’من تطهر في بيته ثم أتى مسجد قباء، فصلى فيه صلاة، كان له كأجر عمرۃ‘‘
ترجمہ:جس نے اپنے گھر سے اچھی طرح وضو کیا، پھر مسجد قباء آیا اور اُس میں نماز ادا کی، تو اُس کے لیے ایک عمرہ کے برابر ثواب ہے۔(سنن ابن ماجۃ، باب ما جاء في الصلاة في مسجد قباء، جلد1، صفحہ 453، مطبوعه دار احياء الکتب العربیۃ)
امام ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ ترمذی رَحْمَۃُاللہ تَعَالیٰ عَلَیْہِ(سالِ وفات: 279 ھ/ 892 ء) حدیث روایت کرتے ہیں:
’’الصلاة في مسجد قباء كعمرة‘‘
ترجمہ: مسجدِ قباء میں نفل نماز کی ادائیگی کا ثواب ایک عمرہ کی مانند ہے۔(جامع الترمذی، باب ما جاء في الصلاة في مسجد قباء، جلد 1، صفحہ 356، دار الغرب الاسلامی، بیروت)
خود نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے عمل مبارک کے متعلق ابوحسین امام مسلم بن حجاج قشیری رَحْمَۃُاللہ تَعَالیٰ عَلَیْہِ(سالِ وفات: 261 ھ/ 875 ء) نقل کرتے ہیں:
’’كان رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم يأتي مسجد قباء راكبا وماشيا فيصلي فيه ركعتين‘‘
ترجمہ: نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پیدل یا سوار ہو کر مسجدِ قباء تشریف لاتے اور وہاں آکر دو رکعت نماز ادا فرمایا کرتے تھے۔ (صحیح المسلم، باب فضل مسجد قباء، جلد 2، صفحه 1016،مطبوعه دار احیاء التراث العربی، بیروت)
اِس حدیث کی شرح میں علامہ علی قاری حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالیٰ عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1014 ھ/ 1605 ء) امام شرف الدین طیبی رَحْمَۃُاللہ تَعَالیٰ عَلَیْہِ سے ایک نکتہ نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’فيه دليل على أن التقرب بالمساجد ومواضع الصلحاء مستحب‘‘
ترجمہ: اِس حدیث مبارک میں اِس بات پر دلیل موجود ہے کہ باہتمام مسجدوں اور خدا کے متقی وصالح لوگوں کے مقامات کی حاضری اور زیارت کے لیے جانا مستحب ہے۔ (مرقاۃ المفاتیح، باب المساجد، جلد 2، صفحہ 373، مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
نوٹ: دیگر بہت سی روایات میں نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مسجدِ قباء جانا ہفتہ کے دن ثابت ہے، لیکن یاد رہے کہ عمرہ کے برابر اجر وثواب کا حصول صرف ہفتہ کے دِن حاضری کے ساتھ خاص نہیں ہے، بلکہ کسی بھی دن حاضری اور دو رکعت نفل کی ادائیگی سے ثواب کا حصول ہونے کی امید ہے، کیونکہ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے فرامین میں بغیر دِن کی قید کےثواب کی نوید بیان کی گئی ہے، جیسا کہ اوپر فتویٰ میں بھی دو روایات نقل کی گئی ہیں، جن میں دِن کی قید کے بغیر ثواب کو بیان کیا گیا ہے۔ اِسی بات کو ”المسلک المتقسط“ میں یوں لکھا گیا:
’’صح عنہ ان صلاۃ رکعتین فیہ کثوابِ عمرۃ ای سواء یکون یوم السبت او غیرہ لعمومہ‘‘
ترجمہ: نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے بطریقِ صحیح یہ روایت ثابت ہے کہ مسجدِ قباء میں دو رکعتیں ادا کرنا ایک عمرہ کے ثواب کی مثل ہے، یعنی برابر ہے کہ مسجدِ قباء کی حاضری ہفتہ کے دن ہو یا اِس کے علاوہ، کیونکہ روایت میں عموم ہے۔ (المسلک المتقسط شرح المنسک المتوسط، صفحہ 734، مطبوعہ المکتبۃ الامدادیہ، مکۃ المکرمۃ)
دوسری بات یہ کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّمَ کا ”ہفتہ“ کے دن جاناصرف ” ہفتہ“ کے دن جانے کی افضلیت کو ظاہر کرنے کے لیے تھا، ثواب کو ہفتہ پر موقوف کرنے کے لیے نہ تھا، چنانچہ علامہ علی قاری حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالیٰ عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1014 ھ/ 1605 ء) لکھتے ہیں:
’’(یوم السبت) انما ھو بیان زمان الافضل لما روی اتیانہ صلی اللہ علیہ و سلم یوم الاثنین ایضاً و صبیحۃ عشر من رمضان و کان عمر رضی اللہ عنہ یاتی قباء یوم الاثنین و الخمیس‘‘
ترجمہ: ہفتہ کا دن تو صرف افضل وقت اور افضل دن بیان کرنےکے لیے تھا، کیونکہ خود نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ہی پیر اور رمضان کی دَسویں صبح مسجدِ قباء آنا مروی ہے، یونہی حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالیٰ عَنْہ ہر پیر اور جمعرات کو مسجد قباء آیا کرتے تھے۔ (المسلک المتقسط شرح المنسک المتوسط، صفحہ 733، مطبوعہ المکتبۃ الامدادیہ، مکۃ المکرمۃ)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: Book-195
تاریخ اجراء: 29 ذو القعدۃ الحرام 1443 ھ/29 جون 2022 ء