مقیم تیسری و چوتھی رکعت میں کتنی دیر خاموش کھڑا رہے گا؟

مقیم تیسری و چوتھی رکعت میں کتنی دیر خاموش کھڑا رہے گا؟

مجیب:مولانا محمد سعید عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3720

تاریخ اجراء:12 شوال المکرم 1446 ھ/11 اپریل 2025 ء

دار الافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   مقتدی مقیم اور امام مسافر ہو تو امام کے سلام پھیرنے کے بعد مقتدی تیسری اور چوتھی رکعت میں کتنی دیر خاموش کھڑا رہے گا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

   بیان کردہ صورت میں تیسری اور چوتھی رکعت میں مقتدی سورہ فاتحہ کی مقدار خاموش کھڑا رہے گا، اس لئے کہ مقیم مقتدی ان رکعتوں میں قراءت کے حق میں لاحق  کی طرح ہوتا ہے، اور لاحق اپنی بقیہ رکعتوں میں( قراءت کے معاملے میں) مقتدی کے حکم میں ہوتاہے، اور مقتدی  امام کے پیچھے قراءت نہیں کرتا بلکہ جتنی  دیرامام قراءت کرتا ہے اتنی دیر خاموش کھڑارہتاہے اور آخری دورکعتوں میں مسنون طریقے کے مطابق صرف فاتحہ کی قراءت کی جاتی ہے۔

   در مختار و رد المحتار میں ہے (وعبارۃ الدربین الھلالین) "(مقيم ائتم بمسافر) فهو لاحق بالنظر للأخيرتين" ترجمہ: جو مقیم مسافر کی اقتداکرے تووہ آخری دو رکعتوں کے اعتبارسے لاحق ہے۔(الدر المختار مع رد المحتار، باب الامامۃ، ج 01، ص 549، دار الفکر، بیروت)

   جدالممتارمیں ہے "إنما هو كاللاحق في حق القراءة لا غير، فإذا انقضت صلاة الإمام صار منفردا حتى يجب عليه السجود بسهوه في الأخيرتين" ترجمہ: یہ صرف قراءت کے حق میں لاحق کی طرح ہے دوسرے معاملات میں نہیں، پس جب امام کی نمازختم ہوجائے تو وہ منفردہوجائے گا یہاں تک کہ آخری دورکعتوں میں اسے سہوہوتواس کی وجہ سے اس پرسہوکے سجدے واجب ہوں گے۔(جد الممتار، فصل فی المسبوق، ج 03، ص 325، مکتبۃ المدینہ)

   لاحق اپنی بقیہ رکعتوں میں مقتدی کے حکم میں ہے،چنانچہ بدائع الصنائع میں ہے "و أما اللاحق۔۔۔ كأنه خلف الإمام و لهذا لا قراءة عليه۔۔۔ كما لو كان خلف الإمام حقيقة" ترجمہ: بہرحال  لاحق تو گویا یہ امام کے پیچھے ہے، اسی وجہ سے اس پر قراءت نہیں،جیساکہ  اگرحقیقتاً امام کے پیچھے ہوتا۔(بدائع الصنائع، ج 01، ص 247، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

   فتاوی رضویہ میں مقیم مقتدی کے متعلق ہے"وہ پچھلی رکعتوں میں کہ مسافرسے ساقط ہیں، مقیم مقتدی لاحق ہے۔۔۔ اورحکم اس کایہ ہے کہ جتنی نمازمیں لاحق ہے، پہلے اسے بے قراء ت ادا کرے، یعنی حالت قیام میں کچھ نہ پڑھے بلکہ اتنی دیرکہ سورہ فاتحہ پڑھی جائے محض خاموش کھڑا رہے۔" (فتاوی رضویہ، ج 07، ص 239، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   در مختار میں ہے "(و اكتفى) المفترض (فيما بعد الأوليين بالفاتحة) فإنها سنة على الظاهر، و لو زاد لا بأس به" ترجمہ: فرض نماز پڑھنے والا پہلی دو رکعتوں کے بعد والی رکعتوں میں سورہ فاتحہ پڑھنے پر اکتفاء کرے، اور یہ ظاہر قول کے مطابق سنت ہے، اور اگر مزید قراءت کرے تو بھی حرج نہیں۔(در مختار مع رد المحتار، ج 1، ص 511، دار الفکر، بیروت)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم