
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
مقتدی کے لیے تکبیرات انتقال کہنے کا کیا حکم ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
مقتدی بھی آہستہ آواز سے تکبیراتِ انتقال کہے گا، امام کی طرح، مقتدی کے لیے بھی یہ تکبیرات کہنا سنت ہے۔
در مختار میں نماز کی سنتیں بیان کرتے ہوئے فرمایا:
(و جهر الامام بالتكبير) بقدر حاجته للاعلام بالدخول و الانتقال، و كذا بالتسميع و السلام. و أما المؤتم و المنفرد فيسمع نفسه
ترجمہ: امام کا نماز میں داخل ہونے اور ایک رکن سے دوسرے رکن کی طرف منتقل ہونے پر آگاہ کرنے کے لیے بقدرِ ضرورت بلند آواز سے تکبیر کہنا اور اسی طرح
سمع اللہ لمن حمدہ
کہنا اور سلام کہنا ہے۔ اور مقتدی اور تنہا نماز پڑھنے والاصرف اتنی آواز سے کہے گا کہ خود سن لے۔ (الدر المختار، صفحہ 65، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
در مختار و رد المحتار میں ہے
(و ثمانیۃ تفعل مطلقا) ای فعلھا الامام او لا۔۔۔ (تکبیر انتقال) ای الی الرکوع او سجود او رفع منہ
ترجمہ: آٹھ چیزیں مقتدی مطلقا کرے گا چاہے امام کرے یا نہ کرے، ان میں سے ایک تکبیر انتقال ہے یعنی رکوع و سجود کی طرف جاتے یا سجدہ سے اٹھتے ہوئے تکبیر کہنا۔ (رد المحتارمع الدرالمختار، جلد 2، صفحہ 12، دار الفکر، بیروت)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد آصف عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: WAT-4053
تاریخ اجراء: 28 محرم الحرام 1447ھ / 24 جولائی 2025ء