امام کے ساتھ سَمِعَ اللّٰہ کہنے کا شرعی حکم

سمع اللہ لمن حمدہ مقتدی بھی امام کے ساتھ کہے گا یا نہیں؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ میں نے سنا ہے کہ مقتدی بھی امام کے ساتھ رکوع سے اٹھتے ہوئے سمع اللہ لمن حمده کہے گا۔ یہ بات کہاں تک درست ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

ظاہر الروایہ مذہب کےمطابق امام اعظم، امام ابو یوسف اور امام محمد علیہم الرحمۃ سب کے نزدیک بغیر کسی اختلاف کےمقتدی کے لیے صرف اللهمّ ربّنا و لك الحمد کہنا سنت ہے، مقتدی سمع اللہ لمن حمده نہیں کہے گا۔ البتہ امام کے لیےصرف سمع اللہ لمن حمده کہنا اور منفرد کو دونوں کہنا سنت ہے۔

امام بخاری علیہ الرحمۃ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

اذا قال الامام سمع اللہ لمن حمده فقولوا:اللهم ربنا لك الحمد فانه من وافق قوله قول الملائكة غفر له ما تقدم من ذنبه

ترجمہ: جب امام سمع اللہ لمن حمده کہے، تو تم اللهم ربنا لك الحمد کہو کہ جس کا قول فرشتوں کے قول کے مطابق ہوا، اس کے پچھلے گناہ بخش دیئے جائیں گے۔ (الجامع الصحیح للامام البخاری، جلد 1، صفحہ 109، مطبوعہ کراچی)

اس کی شرح عمدۃ القاری میں ہے:

انه صلى اللہ عليه وسلم قسم التسميع و التحميد فجعل التسميع للامام والتحميد للماموم فالقسمة تنافی الشركة

یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے تسمیع وتحمیدکی تقسیم کی کہ امام کے لیے تسمیع رکھی اورمقتدی کے لیے تحمید، لہذا تقسیم شراکت کے منافی ہے(یعنی نہ امام تحمید کہے گااور نہ مقتدی تسمیع)۔ (عمدۃ القاری، جلد 4، صفحہ 530، مطبوعہ ملتان)

فقہائے احناف کے ہاں بغیر کسی اختلاف کےمقتدی صرف تحمیدکہےگا، تسمیع نہیں، جیساکہ فتاوی عالمگیری میں ہے:

ان كان مقتدياً ياتی بالتحميد ولاياتی بالتسميع بلا خلاف

یعنی ائمہ کا اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ مقتدی صرفاللهم ربنا لك الحمدکہےگا،سمع اللہ لمن حمده نہیں کہے گا۔ (الفتاوی الھندیۃ، جلد 1، صفحہ 74، مطبوعہ پشاور)

فتح القدیر میں ہے:

واتّفقوا ان المؤتمّ لا يذكر التسميع

یعنی فقہائے احناف کا اس بات پراتفاق ہے کہ مقتدی سمع اللہ لمن حمده نہیں کہے گا۔(فتح القدیر، جلد 1، صفحہ 460، مطبوعہ کوئٹہ)

نہر الفائق میں ہے:

اما اكتفاء المؤتم فبالاجماع ای: بين الامام وصاحبيه على الظاهر

یعنی ظاہر الروایہ کے مطابق امام اعظم اور صاحبین علیہم الرحمۃ کے نزدیک بالاجماع مقتدی صرف تحمید یعنی اللهمّ ربّنا و لك الحمد ہی کہے گا۔ (النھر الفائق شرح کنز الدقائق، جلد 1، صفحہ 215، مطبوعہ کراچی)

صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ ارشاد فرماتے ہیں :’’رکوع سےاٹھنے میں امام کے لیے سمع اللہ لمن حمده کہنا اورمقتدی کے لیے اللهمّ ربّنا و لك الحمد کہنا اور منفرد کو دونوں کہنا سنت ہے۔“ (بھار شریعت، جلد 1، حصہ3،صفحہ527، مکتبۃ المدینہ،کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری

فتویٰ نمبر: Nor-11152

تاریخ اجراء: 17 ربیع الثانی 1442ھ / 03 دسمبر 2020ء