تراویح کا آغاز کب اور کیسے ہوا؟

تراویح کے آغازکے متعلق تفصیل

مجیب:مولانا محمد آصف عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3620

تاریخ اجراء:06 رمضان المبارک 1446 ھ/07 مارچ 2025 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   نمازِ تراویح  نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کے دور میں نہیں پڑھی جاتی تھی اور نہ ہی  قرآن میں اس کے پڑھنے کا حکم ہے،تو  تراویح کی  نماز کب شروع کی گئی اور کس نے حکم دیا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مبارک دور میں ہی تراویح کا آغاز ہوا،خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پڑھی اور اس کی ترغیب دی، اور اس کے بعد مسلسل نماز تراویح پڑھی جاتی رہی اور اسی تسلسل کے ساتھ امت مسلمہ  ابھی تک نماز تراویح پڑھتی آرہی ہے۔ البتہ! نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے چند دن باجماعت تراویح پڑھانے کے بعد پھر اس کی جماعت کروانی ترک کردی کہ کہیں یہ فرض نہ ہوجائے، جو بعد میں امت پر گراں ہو، اورنبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات ظاہری کے بعد جب وحی کا سلسلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا، تو اب جس اندیشہ کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جماعت (جو کہ ایک اچھا عمل تھا) کروانا ختم فرمایا تھا وہ نہ رہا، لہذا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جماعت کے ساتھ تراویح کو دوبارہ جاری کروادیا۔ تو تراویح اور جماعت دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہی سے ثابت ہیں۔ اس کے ثبوت میں تمام روایات درج کی جائیں تو مضمون  طویل ہوجائے گا۔چند ایک روایات درج ذیل ہیں:  

   صحیح بخاری میں ہے "عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من قام رمضان إيمانا و احتسابا، غفر له ما تقدم من ذنبه" ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: جس نے ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے رمضان میں قیام کیا،اس کے اگلے گناہ بخش دئے جائیں گے۔ (صحیح البخاری، رقم الحدیث 37، ج 1، ص 16، دار طوق النجاۃ)

   صحیح بخاری میں ہے "عن عائشة أم المؤمنين رضي الله عنها: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى ذات ليلة في المسجد، فصلى بصلاته ناس، ثم صلى من القابلة، فكثر الناس، ثم اجتمعوا من الليلة الثالثة أو الرابعة، فلم يخرج إليهم رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما أصبح قال: «قد رأيت الذي صنعتم، و لم يمنعني من الخروج إليكم إلا أني خشيت أن تفرض عليكم» و ذلك في رمضان" ترجمہ: اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک رات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے مسجد میں نمازِ (تراویح) پڑھی تو لوگوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ نماز پڑھی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اگلی رات نمازِ (تراویح) پڑھی تو لوگ اور زیادہ ہو گئے۔ پھر تیسری یا چوتھی رات بھی لوگ اکٹھے ہوئے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان کی طرف تشریف نہ لائے۔ جب صبح ہوئی تو فرمایا: تمہارا عمل میں نے دیکھا لیکن مجھے تمہارے پاس آنے سے صرف یہ خوف مانع تھا کہ کہیں تم پر یہ نماز فرض نہ ہو جائے۔ یہ رمضان المبارک کا واقعہ ہے۔ (صحیح البخاری، رقم الحدیث 1129، ج 2، ص 50، دار طوق النجاۃ)

   صحیح بخاری میں ہے عن عبد الرحمن بن عبد القاري، أنه قال: خرجت مع عمر بن الخطاب رضي الله عنه، ليلة في رمضان إلى المسجد، فإذا الناس أوزاع متفرقون، يصلي الرجل لنفسه، و يصلي الرجل فيصلي بصلاته الرهط، فقال عمر: «إني أرى لو جمعت هؤلاء على قارئ واحد، لكان أمثل» ثم عزم، فجمعهم على أبي بن كعب، ثم خرجت معه ليلة أخرى، و الناس يصلون بصلاة قارئهم، قال عمر: «نعم البدعة هذه“ ترجمہ: حضرت عبد الرحمٰن بن عبد القاری رضی اللہ عنہ سے مروی  ہے،فرماتے ہیں کہ میں رمضان میں ایک رات حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ مسجد کی طرف نکلا، تو اس وقت لوگ الگ الگ نماز پڑھ رہے تھے، کوئی اکیلے نماز پڑھ رہا تھا، اور کوئی شخص نماز پڑھا رہا تھا تو اس کے پیچھے ایک جماعت نماز پڑھ رہی تھی، تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں مناسب سمجھتا ہوں اگر میں ان کو ایک امام کے پیچھے جمع کردوں تو یہ زیادہ بہتر ہوگا، پھر آپ نے ارادہ فرمایا، تو ان لوگوں کو حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے پیچھے جمع فرمادیا ، پھر میں دوسری رات آپ کے ساتھ نکلا، تو لوگ اپنے امام کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے، تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : یہ کتنی اچھی بدعت ہے۔ (صحیح بخاری، رقم الحدیث 2010، ج 3، ص 45، دار طوق النجاۃ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم