
مجیب:مولانا محمد نوید چشتی عطاری
فتوی نمبر:WAT-3456
تاریخ اجراء: 05رجب المرجب 1446ھ/06جنوری2025ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
نماز میں عمامہ یا ٹوپی صحیح کریں جیسے پیشانی سے اوپر کریں، تو کیا حکم ہے ؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
نماز کے دوران اگر عمامہ یا ٹوپی پیشانی پر آجائے، تو عمل قلیل کے ذریعے اسے درست کر لینے میں حرج نہیں (مثلا بایاں ہاتھ باندھے رکھے اورسیدھے ہاتھ کے ساتھ عمامے وغیرہ کو پیچھےسرک دے) کہ یہ مفیدعمل ہے۔ اوراگرعمل کثیرسے درست کیا)یعنی اس انداز سےدرست کیا کہ دو ر سےدیکھنے والےکوظن غالب یہی ہو کہ یہ نماز میں نہیں (تو نماز فاسد ہوجائے گی ۔نیزیہ بھی خیال رہے کہ عمل قلیل کے ساتھ درست کرنے میں یہ بھی ضروری ہے کہ ایک رکن(مثلاقیام یارکوع یاسجدہ) میں دوسے زیادہ بارہاتھ استعمال نہ کیاجائےکہ ایک ہی رکن میں دوسے زیادہ بارہاتھ استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے ۔
علامہ ابن عابدین شامی علیہ الرحمۃ ردالمحتار میں نقل فرماتے ہیں:”قال فی النھایۃ وحاصلہ ان کل عمل ھو مفید للمصلی فلا باس بہ ،اصلہ ماروی ان النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم عرق فی صلاتہ فسلت العرق عن جبینہ ای مسحہ لانہ کان یوذیہ فکان مفیدا و فی زمن الصیف کان اذا قام من السجود نفض ثوبہ یمنۃ او یسرۃ لانہ کان مفیدا کی لاتبقی صورۃ۔ فامامالیس بمفید فھو عبث “ ترجمہ : نہایہ میں ہے :حاصل کلام یہ ہے کہ ہر وہ عمل کہ جو نمازی کے لیے مفید ہو ، اسے کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اس کی اصل یہ روایت ہے کہ نبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو نماز میں پسینہ آیا تو آپ نے پونچھ لیا یعنی ہاتھ پھیر کر صاف کردیا، چونکہ یہ تکلیف کا باعث ہے لہٰذا یہ مفید عمل ہے اور گرمی کے زمانہ میں حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم جب سجدہ سے قیام فرماتے تو دائیں یا بائیں طرف سے کپڑا چھڑالیتے کہ یہ بھی مفید عمل ہے تاکہ جسم کی ہیئت ظاہر نہ ہو ۔ رہا وہ عمل کہ جو مفید نہ ہو تو وہ عبث و مکروہ ہے ۔(ردالمحتار ، جلد 2، صفحہ 490، مطبوعہ کوئٹہ )
خلاصۃ الفتاوی میں ہے" وان حک ثلاثافی رکن واحد تفسد صلوتہ ھذا اذا رفع یدہ فی کل مرۃ اما اذا لم یرفع فی کل مرۃ فلا تفسد صلوتہ لانہ حک واحد "ترجمہ: اگر تین بار ایک رکن میں کھجایا تو اس کی نماز فاسد ہوجائے گی یہ تب ہے جب ہر بار اپنا ہاتھ اٹھائے اور اگر ہر بار ہاتھ نہ اٹھائے تو نماز فاسد نہ ہوگی کیونکہ یہ ایک بار کھجانا ہے ۔ (خلاصۃ الفتاوی،ج1،ص129،مطبوعہ: کوئٹہ)
جد الممتار میں ہے:” و حاصل الکلام:أن العمل الکثیر ھو الذی یغلب علی ظن الناظر أنہ لیس فی الصلاۃ و یکوں ذلک فیما یعمل بالید بعمل ما یقام عادۃ بالیدین و بتثلیث ما یفعل بید واحدۃ ۔“ ترجمہ:اورحاصل کلام یہ ہے کہ عمل کثیر وہ ہے جس کے کرنے والے کے بارے میں دیکھنے والا غالب گمان یہی کرے کہ یہ نماز میں نہیں ہے اور جوکام ہاتھ سے کیاجاتاہواس میں یہ صورت تب پائی جائے گی جب ایساعمل کیاجائے جوعادتادوہاتھ سے کیاجاتاہواورجوایک ہاتھ سے کیاجاتاہواسے تین بارکیاجائے ۔(جد الممتار، ج3، ص351، مطبوعہ :مکتبۃ المدینہ کراچی)
فتاوی رضویہ میں ہے " ایک رکن مثلاً قیام یا قعود یارکوع یاسجود میں تین بار نہ کھجاوے دوبارتک اجازت ہے۔" (فتاوی رضویہ،ج07،ص384،رضافاؤنڈیشن،لاہور)
مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”عملِ کثیر کہ نہ اعمالِ نماز سے ہو، نہ نماز کی اصلاح کے لئے کیا گیا ہو ، نماز فاسد کردیتا ہے، عملِ قلیل مفسد نہیں ۔جس کام کے کرنے والےکو دور سے دیکھ کر اس کے نماز میں نہ ہونے کا شک نہ رہے ،بلکہ غالب گمان ہو کہ وہ نماز میں نہیں ، تو وہ عملِ کثیر ہےاور اگر دور سے دیکھنے والے کو شبہ و شک ہو کہ نماز میں ہے یا نہیں ،تو عملِ قلیل ہے۔ “(بہارِ شریعت، جلد1،حصہ 3،صفحہ609،مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم