
منہ بند کر کے صرف دل میں ہی قراءت کرنے سے نماز کا حکم؟ |
مجیب:مفتی قاسم صآحب مدظلہ العالی |
فتوی نمبر: Sar-7118 |
تاریخ اجراء: 23 ربیع الاول1442ھ/10 نومبر2020 |
دارالافتاء اہلسنت |
(دعوت اسلامی) |
سوال |
کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفیان ِشرع متین اس مسئلے کےبارےمیں کہ نمازمیں منہ بندکرکےصرف دل میں ہی قراءت کرنے سے نمازہوجائےگی یانہیں؟ |
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ |
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ |
یہ نہایت اہم مسئلہ ہے اور لوگوں کی بہت بڑی تعداد اس سے غافل ہے۔ حکم شرعی واضح ہے کہ قراءت نماز کا فرض ہے اور اس فرض قراءت کےلیےزبان سےحروف کی صحیح ادائیگی کے ساتھ ساتھ اتنی آواز کا ہونا ضروری ہے کہ کسی مانع (مثلا شور و غل وغیرہ) کےبغیرپڑھنےوالا خودوہ آواز سن سکے،اس سےکم آوازسے یا دل میں سوچ بچارکرنے کوقراءت نہیں کہاجائےگا۔ لہذااگرکوئی زبان کی بجائےصرف دل میں ہی پڑھتارہا،تو قراءت کا فرض چھوٹ جانے کی وجہ سے اس کی نمازنہیں ہوگی،اسی طرح اگرزبان سےتوپڑھا،مگراتنی کم آوازسے کہ کسی مانع (مثلاشوروغل وغیرہ) کےبغیربھی اس کی آوازاپنےکانوں تک سنائی نہ دی ،تواصح مذہب میں اس کی بھی نمازنہیں ہوگی۔ قراءت کےبارےمیں مبسوط سرخسی میں ہے:”وحدالقراءةان يصحح الحروف بلسانه على وجه يسمع من نفسه او يسمع منه من قرب اذنه من فيه،فامامادون ذلك فيكون تفكراومجمجةلاقراءة“ترجمہ:اورقراءت کی تعریف یہ ہےکہ زبان سےاس طرح حروف کی صحیح ادائیگی ہوکہ وہ خودسن لےیاجواس کےمنہ کےقریب کان کرے،تووہ سن لے،بہرحال اس سے کم آوازتفکر(یعنی سوچ بچار) اورمنہ میں ہی کچھ کہنایعنی بڑبڑاہٹ توہوگی،مگرقراءت نہیں ہوگی۔(المبسوط للسرخسی،کتاب الصلاۃ،کیفیۃالدخول فی الصلاۃ،جلد1،صفحہ101،مطبوعہ کوئٹہ) اسی بارےمیں محیط برہانی اورالجوہرۃالنیرۃ میں ہے:”واللفظ للثانی“وقال الهندوانی الجهر ان يسمع غيره و المخافتةان يسمع نفسه وهوالصحيح،لان مجردحركةاللسان لايسمى قراءةدون الصوت“ ترجمہ:امام ہندوانی علیہ الرحمۃ فرماتےہیں:جہریہ ہےکہ اس کےعلاوہ کوئی دوسرابھی سن لےاورسِر(یعنی آہستہ پڑھنا)یہ ہےکہ خودسن سکےاور یہی صحیح ہے،کیونکہ بغیرآوازکےصرف زبان کوحرکت دینےکا نام قراءت نہیں ہے۔ (الجوھرۃالنیرۃ،کتاب الصلاۃ، باب صفۃالصلاۃ،جلد1،صفحہ66،مطبوعہ کوئٹہ) اگراتنی کم آوازسےپڑھاکہ اپنےکانوں کوآوازنہ آئی ،تواصح قول میں نمازنہ ہوئی،چنانچہ درمختارمیں ہے: ”(و) ادنى (الجهر اسماع غيره و)ادنى(المخافتةاسماع نفسه)ومن بقربه،فلوسمع رجل اورجلان فليس بجهر، و الجهر ان يسمع الكل "خلاصة" (ويجری ذلك)المذكور(فی كل ما يتعلق بنطق، كتسميةعلى ذبيحةووجوب سجدةتلاوةوعتاق وطلاق واستثناء) وغيرها،فلوطلق اواستثنى ولم يسمع نفسه لم يصح فی الاصح“ ترجمہ:جہری قراءت کی کم سےکم مقداریہ ہےکہ دوسراسن لےاور سری قراءت کی کم سےکم مقداریہ ہےکہ خودسن لےاورجواس کےقریب ہے،لہذااگرایک یادوافرادنےسنا،تویہ جہرنہیں ہے،جہریہ ہےکہ تمام افراد سنیں، خلاصہ، اور اسی پروہ تمام احکام لاگو ہوں گے،جوبولنےسےمتعلق ہیں،جیسےذبح میں تسمیہ اورسجدہ تلاوت کا واجب ہونا، طلاق، عتاق اور استثناءاوراس کےعلاوہ،لہذااگرطلاق دی یااستثناءکیااورخودنہ سنا،تواصح مذہب میں استثناء درست نہ ہوا۔(درمختار،کتاب الصلاہ،فصل فی القراءۃ،جلد2،صفحہ308تا309،مطبوعہ کوئٹہ) قراءت کےبارےمیں فتاوی رضویہ میں ہے:”نمازمیں قراءت ایسی پڑھی کہ اپنےکان تک (آواز)نہ آئے،وہ قراءت نہ ٹھہرےگی اور اصح مذہب پرنمازنہ ہوگی،بہت لوگ اس مسئلہ سےناواقف ہیں۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 10، صفحہ 785، رضا فاؤنڈیشن،لاھور) اسی بارےمیں بہارشریعت میں ہے:”قراءت اس کانام ہےکہ تمام حروف مخارج سےاداکیےجائیں کہ ہرحرف غیرسےصحیح طور پر ممتاز ہوجائےاورآہستہ پڑھنےمیں بھی اتناہوناضرورہےکہ خودسنے،اگرحروف کی تصحیح توکی،مگراس قدرآہستہ کہ خود نہ سنااورکوئی مانع،مثلاًشورو غل یاثقل سماعت بھی نہیں،تونمازنہ ہوئی۔“ (بھار شریعت، جلد 1، صفحہ 511 تا 512، مکتبۃ المدینہ،کراچی) |
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم |