
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ نماز کے دوران اگر کوئی دونوں ہاتھ چھوڑ کر خارش کرنا شروع کر دے تو کیا اس سے نماز ٹوٹ جائے گی؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں مطلقاً نماز ٹوٹ جانے کا حکم نہیں، البتہ اگر دونوں ہاتھوں کو اس انداز میں استعمال کرتے ہوئے خارش کی کہ دور سے دیکھنے والے کو ظن غالب ہو جائے کہ ایسا کرنے والا نماز میں نہیں ہوگا، تو عمل کثیر ہونے کی وجہ سے نماز ٹوٹ جائے گی، ورنہ نہیں۔ بہر حال اگر نماز میں خارش ہو تو ضبط کی کوشش کرنی چاہیے، اور نہ ہو سکے یا اس سے توجہ بٹے تو کر لی جائے، مگر بہتر یہی ہے کہ قیام میں سیدھا ہاتھ استعمال کیا جائے کہ اس سے کم حرکت ہو گی اور ایک ہاتھ اپنی جگہ پر رہے گا۔ نیز ایک رکن مثلاً قیام یا رکوع یا سجود میں دو مرتبہ سے زیادہ نہ کھجایا جائے؛ کیونکہ ایک رکن میں تین بار کھجانے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے۔
ملک العلما علامہ ابوبکر بن مسعود كاسانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 587 ھ/ 1191 ء) لکھتے ہیں:
”و منها العمل الكثير الذي ليس من أعمال الصلاة في الصلاة من غير ضرورة فأما القليل فغير مفسد، و اختلف في الحد الفاصل بين القليل و الكثير... قال بعضهم: كل عمل لو نظر الناظر إليه من بعيد لا يشك أنه في غير الصلاة فهو كثير، و كل عمل لو نظر إليه ناظر ربما يشبه عليه أنه في الصلاة فهو قليل و هو الأصح“
ترجمہ: اور مفسداتِ نماز میں سے بلا ضرورت نماز میں ایسا عمل کثیر کرنا بھی ہے جو اعمال نماز میں سے نہ ہو، رہا عمل قلیل تو وہ مفسد نماز نہیں۔ عمل قلیل اور عمل کثیر کے درمیان حد فاصل کے متعلق اختلاف ہے، بعض فقہائے کرام نے فرمایا: ہر وہ عمل جسے اگر کوئی دیکھنے والا دور سے دیکھے تو اسے اس شخص کے نماز میں نہ ہونے کی بابت شک نہ رہے، تو وہ عمل کثیر ہے، اور ہر وہ عمل جسے اگر کوئی دیکھنے والا دیکھے تو اس شخص کے نماز میں ہونے کے متعلق اس پر معاملہ کچھ مشتبہ ہو جائے تو وہ عمل قلیل ہے، اور یہی اصح قول ہے۔ (بدائع الصنائع، کتاب الصلاۃ، جلد 1، صفحہ 241، دار الكتب العلمية، بیروت)
امام اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 1340 ھ / 1921 ء) لکھتے ہیں:
”و حاصل الكلام: أن العمل الكثير هو الذي يغلب على ظنّ الناظر أنه ليس في الصلاة، و يكون ذلك فيما يعمل باليد بعمل ما يقام عادة باليدين و بتثليث ما يفعل بيد واحدة، و كذا كل حركة قليلة تكررت ثلاثا متوالية، فافهم، و اللہ تعالى أعلم“
ترجمہ: خلاصۂ کلام یہ ہے کہ عمل کثیر وہ ہے جس سے دیکھنے والے کو غالب گمان ہو کہ یہ شخص نماز میں نہیں ہے، اور یہ ایسے عمل کو ایک ہاتھ سے کرنے کی صورت میں ہوگا جو عموماً دونوں ہاتھوں سے کیا جاتا ہے، یا کوئی ایسا عمل جو ایک ہاتھ سے کیا جاتا ہو اسے تین مرتبہ کرنے سے ہوگا، اور اسی طرح ہر اس قلیل حرکت سے جو تین بار لگاتار دہرائی جائے۔ پس اسے سمجھ لو، اور اللہ تعالیٰ ہی بہتر جاننے والا ہے۔ (جد الممتار، کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ و ما يكره فيها، جلد 3، صفحہ 351، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
مفتی محمد وقار الدین قادری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 1413 ھ/ 1993 ء) لکھتے ہیں: ”عمل کثیر بالاتفاق مفسدِ صلوٰۃ ہے، عمل کثیر کسے کہتے ہیں؟ اس میں اختلاف ہے۔ صحیح قول یہ ہے کہ نمازی کا ایسا فعل عمل کثیر ہے، جس کو دور سے دیکھنے والا یہ سمجھے کہ یہ فعل کرنے والا نماز نہیں پڑھ رہا۔“ (وقار الفتاوی، جلد 2، صفحہ 72، بزم وقار الدین، کراچی)
سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 1340 ھ/ 1921 ء) سے سوال ہوا کہ نماز میں کسی جگہ خارش ہو تو کیا کرے؟ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا: ”ضبط کرے، اور نہ ہو سکے یا اس کے سبب نماز میں دل پریشان ہو، تو کھجا لے، مگر ایک رکن، مثلاً قیام یا قعود یا رکوع یا سجود میں تین بار نہ کھجاوے، دو بار تک اجازت ہے۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 7،صفحہ 384، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ تعالی علیہ (سال وفات: 1367 ھ / 1948 ء) لکھتے ہیں: ”ایک رکن میں تین بار کھجانے سے نماز جاتی رہتی ہے، یعنی یوں کہ کھجا کر ہاتھ ہٹا لیا، پھر کھجایا پھر ہاتھ ہٹا لیا وعلیٰ ہذا، اور اگر ایک بار ہاتھ رکھ کر چند مرتبہ حرکت دی تو ایک ہی مرتبہ کھجانا کہا جائے گا۔“ (بہار شریعت، جلد 1، حصہ 3، صفحہ 614، مکتبة المدینہ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتویٰ نمبر: FAM-781
تاریخ اجراء: 09 ذو الحجة الحرام 1446 ھ / 06 جون 2025 ء