نماز میں فرض قیام کی مقدار کتنی ہے؟

نماز میں فرض قیام کی مقدار

مجیب:ابوالفیضان مولانا عرفان احمد عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3694

تاریخ اجراء:25 رمضان المبارک 1446 ھ/ 26 مارچ 2025 ء

دار الافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   نماز میں فرض قیام کی مقدار کتنی ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

   جن جن نمازوں میں قیام ضروری ہے، ان میں بقدرِفرض قراءت، قیام فرض ہے، مثلافرضوں کی پہلی دو رکعتوں میں جتنی قراءت فرض ہے، اُتنی مقدار قیام فرض، جتنی قراءت واجب اتنی مقدار قیام واجب اور جتنی قراءت سنت اتنی مقدار قیام مسنون ہے، البتہ پہلی رکعت میں فرض قیام کی مقدار میں فرض قراءت کے ساتھ ساتھ تکبیرِ تحریمہ کی مقدار اور قیامِ مسنون میں ثنا، تعوذ و تسمیہ کی مقدار بھی شامل ہوگی اور فرض نماز کی تیسری و چوتھی رکعت میں چونکہ قراءت فرض یا واجب نہیں، اس لیے ان میں ایک تسبیح کی مقدارقیام کرنا فرض ہوگا۔

   درِ مختار میں ہے: ”مفروضہ وواجبہ ومسنونہ ومندوبہ بقدر القراءۃ فیہ“ یعنی فرض، واجب، مسنون اور مستحب قیام اس میں قراءت کی مقدار کے ساتھ مقدرہے۔

   اس کے تحت ردالمحتار میں ہے: ”ذکرہ فی الشرنبلالیۃ بحثا لکن عزاہ فی الخزائن الی الحاوی، و حینئذ فھو بقدر آیۃ فرض و بقدر الفاتحۃ و سورۃ واجب و بطوال المفصل و اوساطہ و قصارہ فی محالھا مسنون“ یعنی اس بات کو شرنبلالیہ میں بحثاً ذکر کیا لیکن مصنف نے اس کو خزائن میں حاوی کی طرف منسوب کیا لہذاقیام ایک آیت کی مقدار فرض ہوگا، سورۂ فاتحہ و ایک سورت کی مقدار واجب ہوگا اور اپنے محل میں طوالِ مفصل، اوساطِ مفصل و قصارِ مفصل کی مقدار مسنون ہوگا۔ (ردالمحتار علی الدر المختار ،ج 2،ص 163،مطبوعہ کوئٹہ)

   صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہ لکھتے ہیں: ”قیام اتنی دیر تک ہے جتنی دیر قراءت ہے یعنی بقدرِ قراءت فرض، قیام فرض اور بقدرِ واجب، واجب اور بقدرِ سنت، سنت۔ یہ حکم پہلی رکعت کے سوا اور رکعتوں کا ہے، رکعتِ اولیٰ میں قیامِ فرض میں مقدارِ تکبیر تحریمہ بھی شامل ہوگی اور قیامِ مسنون میں مقدارِ ثنا و تعوذو تسمیہ بھی۔“ (بہارِ شریعت، جلد 1، حصہ 3، صفحہ 510، مکتبۃ المدینہ)

   در مختار میں ہے (و اكتفى) المفترض (فيما بعد الأوليين بالفاتحة) فإنها سنة على الظاهر، و لو زاد لا بأس به (و هو مخير بين قراءة) الفاتحة (و تسبيح ثلاثا) و سكوت قدرها، و في النهاية قدر تسبيحة“ ترجمہ: فرض نماز پڑھنے والا پہلی دو رکعتوں کے بعد والی رکعتوں میں سورہ فاتحہ پڑھنے پر اکتفاء کرے، اور یہ ظاہر قول کے مطابق سنت ہے، اور اگر مزید قراءت کرے تو بھی حرج نہیں، اور اسے یہ بھی اختیار ہے کہ یا سورہ فاتحہ پڑھے یا تین بار تسبیح کہے یا تین بار تسبیح کی مقدار خاموش کھڑا رہے، اور نہایہ میں ہے ایک بار تسبیح کی مقدار۔

   اس کے تحت رد المحتار میں ہے ”(قوله وفي النهاية قدر تسبيحة) قال شيخنا: و هو أليق بالأصول حلية: أي لأن ركن القيام يحصل بها ترجمہ: (مصنف کا قول:نہایہ میں ہے ایک تسبیح کی مقدار)ہمارے شیخ نے فرمایا: یہی اصول کے اعتبار سے زیادہ  مناسب ہے، حلیہ، کیونکہ  قیام کا رکن اتنی مقدار سے ہی حاصل ہو جاتا ہے۔(در مختار مع رد المحتار، ج 1، ص 511، دار الفکر، بیروت)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم