
مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:FSD-9240
تاریخ اجراء:15 رجب المرجب 1446ھ / 16 جنوری 2025ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ نماز میں چھینک آنے پر نزلہ بہہ کر ناک و منہ کی بیرونی جگہ پر لگ جائے، تواس صورت میں کیا کیا جائے، کیونکہ اگر اس کو ایسے ہی رہنے دیا جائے، تو سجدہ کرنے کی صورت میں مسجد کے فرش پر گرنے کا خدشہ بھی رہتا ہے اور نماز کا خشوع خضوع بھی نہیں رہ پاتا، تو کیا جیب سے رومال نکال کر اسے صاف کرسکتے ہیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں عملِ قلیل کےذریعے ایک رکن مثلاً قیام، رُکوع یاسجودمیں دو مرتبہ رومال نکال کرنزلہ صاف کرنے کی بلاکراہت اجازت ہےکہ نزلہ کو صاف کرنا،خشوع برقرار رکھنے میں مفید عمل ہےاور اس سے مسجد کی نظافت بھی متاثر نہیں ہوگی اور عملِ قلیل کی وجہ سے نمازفاسدنہیں ہوتی،ہاں اگرنزلہ صاف کرنے میں عملِ کثیر کرنا پڑے تو عمل کثیر کی وجہ سے نمازفاسد ہو جائے گی۔
شرعی اعتبار سے عملِ کثیرنمازمیں ایساعمل کرناہےکہ جسے دور سے دیکھنے والے کو غالب گمان ہو کہ یہ نماز میں نہیں ہے، یونہی عمل قلیل کو ایک رکن میں دو سے زائد مرتبہ کرنا بھی عمل کثیر کے حکم میں ہےاوراگر نمازمیں نہ ہونے کا صرف شبہ ہوتویہ عملِ قلیل ہوگا۔
دورانِ نماز عملِ قلیل کے متعلق ضابطہ بیان کرتے ہوئے شمس الائمہ، امام سَرَخْسِی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 483ھ / 1090ء) لکھتے ہیں: أن كل عمل هو مفيد للمصلي، فلا بأس أن يأتي به أصله ما روي عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم: «أنه عرق ليلة في صلاته فسلت العرق عن جبينه» لأنه يؤذيه فكان مفيدا۔۔۔ فأما ما ليس بمفيد فيكره للمصلي أن يشتغل به، لقوله صلی اللہ علیہ وسلم : «إن في الصلاة لشغلا»، و العبث غير مفيد له شيئا، فلا يشتغل به“ ترجمہ :ہر وہ عملِ قلیل کہ جو نمازی کے لیے فائدہ بخش ہو، اُسے کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اِس کی اصل وہ روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو نماز میں پسینہ آیا تو آپ نے اپنی پیشانی مبارک سے پسینہ صاف کیا۔“ کیونکہ پسینہ نمازی کو پریشان کرتا ہے، لہذا اِسے صاف کرنا مفید عمل ہے اور جو عمل نمازی کے لیے فائدہ مند نہ ہو،نماز ی کے لیے اس میں مشغول ہونا مکروہ ہے۔(المبسوط، جلد1، صفحہ 26، مطبوعہ دار المعرفۃ، بیروت، لبنان)
مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1367ھ / 1947ء) لکھتے ہیں: ہر وہ عمل قلیل کہ مصلّی کے ليے مفید ہو جائز ہے اور جو مفید نہ ہو، مکروہ ہے۔(بھار شریعت، جلد 1، حصہ 3،صفحہ 631، مکتبۃ المدینہ کراچی)
ایک رکن میں دوبار سے کم اور زیادہ ہاتھ اٹھانے کی تفصیل کے متعلق غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی میں ہے : ”(ولو حك) المصلي (جسده مرة أو مرتين) متواليتين (لا تفسد) لقلته (و كذا)لا تفسد (إذا فعل) الحك (مرارا غير متواليات) بأن لم يكن في ركن واحد (ولو فعل) ذلك (مرارا متواليات تفسد) لأنه كثير“ ترجمہ :اور اگر نمازی نے اپنے جسم کو مسلسل ایک یا دو مرتبہ کھجایا، تو عملِ قلیل ہونے کی وجہ سے نماز فاسد نہیں ہوگی، اسی طرح جب یہ کھجانا دو سے زائد چند بار ہو، مگر مسلسل نہ ہو، یعنی ایک رُکن میں نہ ہو، تب بھی نماز نہیں ٹوٹے گی اور اگر مسلسل یعنی ایک ہی رکن میں دو بار سے زائدمرتبہ کھجایا، تو نماز فاسد ہو جائے گی، کیونکہ یہ (عملِ) کثیر ہے۔(غنية المستملي شرح منیۃ المصلی، جلد 2، صفحه 386، مطبوعه الجامعۃ الاسلامیۃ)
فتاوی رضویہ میں ہے :”(اوَّلاً)ضبط کرے، اور (اگر ضبط)نہ ہوسکے یا اس کے سبب نماز میں دل پریشان ہو، تو کھجالے، مگر ایک رکن مثلاً قیام یا قعود یارکوع یاسجود میں تین بار نہ کھجاوے، دوبارتک اجازت ہے۔“(فتاوی رضویہ، جلد7،صفحہ384،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)
عملِ کثیر کی تعریف کے متعلق جد الممتار میں ہے: ”حاصل الکلام:أن العمل الکثیر ھو الذی یغلب علی ظن الناظر أنہ لیس فی الصلاۃ“ ترجمہ: حاصل کلام یہ ہے کہ عمل کثیر وہ ہے جس کے کرنے والے کے بارے میں دیکھنے والا غالب گمان یہی کرے کہ یہ نماز میں نہیں ہے۔(جد الممتار، جلد 3، صفحہ 351، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)
اور عملِ قلیل کے متعلق بہار شریعت میں ہے:” اگر دور سے دیکھنے والے کو شبہ و شک ہو کہ نماز میں ہے یا نہیں،تو عملِ قلیل ہے۔“(بھارِ شریعت، جلد 1، حصہ 3، صفحہ 609، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
نماز میں ناک سے کچھ بہنے لگے تو اس کو صاف کرنے کے متعلق فتاوی عالمگیری میں ہے :’’ظهر من أنفه ذنين في الصلاة فمسحه أولى من أن يقطر منه على الأرض“ ترجمہ : نماز میں ناک سے رینٹھ بہنے لگے تو اس کو صاف کرلینا اس کے قطروں کو زمین پر گرنے دینے سے بہتر ہے۔(فتاوی عالمگیری، جلد 1،صفحہ 105، مطبوعہ دار الفکر، بیروت)
بہار شریعت میں ہے :”نماز میں ناک سے پانی بہا، اس کو پونچھ لینا، زمین پر گرنے سے بہتر ہے اور اگر مسجد میں ہے، تو ضرور ہے۔“(بھار شریعت، حصہ 3، صفحہ 609، مکتبۃ المدینہ کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم