Namaz Mein Tasbihat Unchi Aawaz Se Parhna

نماز میں تسبیحات اونچی  آواز سے پڑھنا

مجیب:مولانا محمد حسان عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3528

تاریخ اجراء:01شعبان المعظم1446ھ/31جنوری 2025ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ   بعض لوگ نماز پڑھتے وقت تسبیحات  وغیرہ  اتنی   آواز  سےپڑھتے ہیں کہ جس سے ان کے ارد گرد  کے ایک دو لوگ  سنتے ہیں، اتنی  آواز سے تسبیحات وغیرہ  پڑھنا  کیسا؟ اور اگر اس  سے ان لوگوں کو  نماز میں تکلیف ہوتی ہو تو کیا حکم ہوگا؟  برائے مہربانی  جواب عنایت فرمائیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   تسبیحات وغیرہ  کو اتنی آواز سے پڑھاجائے  کہ  شور و غل یا اونچا سننے کا عارضہ نہ ہو، تو نمازی کے خود اپنے کان سن لیں اور اتنی آواز  سے پڑھنے کی صورت میں  اگر برابر والے نمازی کو بھی ہلکی ہلکی   آواز پہنچے، تو اس میں کوئی حرج نہیں کہ اسے آہستہ ہی کہیں گے، البتہ بعض لوگ اپنے گمان میں تو  آہستہ پڑھ رہے ہوتے ہیں،لیکن اُن کی آواز  تھوڑی تیز ہوتی ہے، جس کی وجہ سے دوسرے نمازیوں  تک بھی  آواز پہنچ رہی ہوتی ہے، جس سے انہیں نماز میں دشواری ہوتی ہے،ایسا  کرنا  مکروہ    ہےلیکن اس کی وجہ سے نماز میں کوئی حرج نہیں ہوگا، لہذا ایسے لوگوں کو چاہیے کہ تھوڑی توجہ کے ساتھ کوشش کرکے اتنی آواز ہی نکالیں کہ دوسرے نمازیوں کوتکلیف نہ ہو۔

   فتاوی رضویہ میں اعلی حضرت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:”مقتدی کو سب کچھ آہستہ ہی پڑھنا چاہئے آمین ہو خواہ تکبیر، خواہ تسبیح ہو خواہ التحیات و درود، خواہ سبحنک اللّٰھم وغیرہ۔ آہستہ پڑھنے کے یہ معنٰی ہیں کہ اپنے کان تک آواز آنے کے قابل ہو اگر چہ بوجہ اس کے یہ خود بہرا ہے یا اس وقت کوئی غُل وشور ہورہا ہے کان تک نہ آئے اور اگر آواز اصلاً پیدا نہ ہوئی تو صرف زبان ہلی تو وہ پڑھنا، پڑھنا نہ ہوگا اور فرض و واجب و سنّت و مستحب جو کچھ تھا وہ ادا نہ ہوگا فرض ادا نہ ہوا تو نماز ہی نہ ہوئی اور واجب کے ترک میں گنہگار ہوا اورنماز پھیرنا واجب رہا اور سنت کے ترک میں عتاب ہے اور نماز مکروہ اور مستحب کے ترک میں ثواب سے محرومی پھر جو آوا زاپنے کان تک آنے کے قابل ہوگی وہ غالب یہی ہے کہ برابر والے کو بھی پہنچے گی اس میں حرج نہیں ایسی آواز آنی چاہئے جیسے راز کی بات کسی کے کان میں منہ رکھ کر کہتے ہیں ضرور ہے کہ اس سے ملا ہُوا جو بیٹھا ہو وہ بھی سُنے مگر اسے آہستہ ہی کہیں گے۔(فتاوی رضویہ، ج6، ص 332، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   بہار شریعت میں صدر الشریعہ علیہ الرحمۃ در مختار ورد المحتار کے حوالے سے فرماتے ہیں :”ا س طرح پڑھنا کہ فقط دو ايک آدمی جو اس کے قریب ہیں سُن سکیں، جہر نہیں بلکہ آہستہ ہے۔۔۔ حاجت سے زیادہ اس قدر بلند آواز سے پڑھنا کہ اپنے یا دوسرے کے ليے باعثِ تکلیف ہو، مکروہ ہے۔(بہار شریعت، ج1، حصہ3،ص544، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم