
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک شخص نے جان بوجھ کر ناپاکی کی حالت میں عصر اور مغرب کی نماز صرف دکھاوے کے لیے پڑھی مگر اس نے نماز کی نیت نہیں کی اور نہ ہی نماز میں اس نے کچھ پڑھا، صرف ارکان ادا کیے اور اپنے اس عمل کو گناہ سمجھتے ہوئے صرف دکھاوے کے لیے کیا، تو اس پر کیا حکم شرع ہوگا؟ کیا ایسے شخص کو تجدید ایمان کرنا ہوگا؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
صورت مسئولہ میں ظاہر یہی ہے کہ نماز کو ہلکا جاننے، یا نماز کے ساتھ مذاق وغیرہ کی نیت نہیں تھی، اور ویسے ہی بغیر نیت کے اور کچھ پڑھے بغیر صرف نماز جیسے افعال ادا کئے تو یہ عمل کفر نہیں ہوگا۔ البتہ دکھاوے کے طور پر ایسا کرنے سے مراد اگر یہ ہو کہ وہ شخص ویسے تو نماز نہیں پڑھتا، مگر لوگوں کے سامنے نماز جیسے افعال ادا کررہا ہے تاکہ وہ اسے نمازی اور نیک آدمی سمجھیں، تو یہ ریاکاری ہے جو کہ ناجائز و گناہ کبیرہ ہے اور قرآن و حدیث میں اس کی مذمت وارد ہے۔ اور اگر دکھاوے سے مقصود یہ ہو کہ ویسے تو وہ شخص نماز کا پابند ہے، مگر کسی موقع پر ناپاکی کی وجہ سے لوگوں کے سامنے شرمندگی سے بچنے کے لیے نماز کی ہیئت اختیار کر رہا ہے تاکہ لوگوں کو اس کا ناپاک ہونا معلوم نہ ہو سکے،تو اس صورت میں اگر نماز کو حقیقت میں قضا کردیا اور مذکورہ افعال صرف دکھاوا تھے تو ترکِ نماز کا گناہ کبیرہ ہوا اور وہ جو محض دنیاوی معاملے میں شرم کی وجہ سے ناپاکی کی حالت میں نماز جیسی اہم ترین عبادت کی ظاہری نقل کی تو وہ بھی عبادت کی عظمت کے خلاف کیا۔
واضح رہے کہ اگر نماز کا وقت ختم ہونے کے قریب ہو تو جنبی شخص پر فوراً غسل کرنا فرض ہوجاتا ہے اور اب بلا عذر شرعی تاخیر ناجائز و گناہ ہوتی ہے۔ اور یہ تو غسل میں تاخیر کا حکم ہے، پھر ناپاکی کی وجہ سے معاذ اللہ عزوجل نمازیں ہی قضا کردینے کا تو بہت سخت حکم ہے کہ یہ بلا عذر شرعی نماز قضا کرنا ہے جو کہ ناجائز و گناہِ کبیرہ ہے اور عذابِ جہنم کا سبب ہے، لہذا بلا عذر شرعی نمازیں قضا کرنے کے سبب نمازوں کی ادائیگی کے ساتھ اس سے توبہ کرنا بھی لازم ہے۔
ناپاکی کی حالت میں نماز کی نیت کے بغیر اور کچھ پڑھے بغیر صرف نماز کی ہیئت اختیار کرنا کفر نہیں، چنانچہ بحر الرائق، مجمع الانہر، فتاوی عالمگیری میں ہے:
و اللفظ للاول:’’و لو ابتلي إنسان بذلك لضرورة بأن كان مع قوم فأحدث و استحيا أن يظهر فكتم ذلك وصلى هكذا أو كان بقرب العدو فقام يصلي و هو غير طاهر قال بعض مشايخنا لا يكون كافرا لأنه غير مستهزئ و من ابتلي بذلك لضرورة أو لحياء ينبغي أن لا يقصد بالقيام قيام الصلاة و لا يقرأ شيئا وإذا حنى ظهره لا يقصد الركوع و لا يسبح حتى لا يصير كافرا بالإجماع‘‘
ترجمہ: اگر کوئی شخص بغیر طہارت کے نماز پڑھنے میں مبتلا ہوجائے، اس طرح کہ وہ کسی قوم کے ساتھ ہو اور اس سے حدث واقع ہو جائے اور وہ اسے ظاہر کرنے میں شرم محسوس کرے، لہذاوہ اسے چھپائے اور اسی حالت میں نماز پڑھ لے، یا دشمن کے قریب ہو اور بے وضو ہونے کے باوجود نماز کے لیے کھڑا ہو جائے، تو ہمارے بعض مشائخ نے فرمایا ہے کہ وہ کافر نہ ہوگا کیونکہ وہ (نماز کا) مذاق نہیں اڑا رہا۔ اور جو کسی ضرورت یا شرم کی وجہ سے اس میں مبتلا ہوجائے، تو اس کے لیے بہتر یہ ہے کہ وہ نماز کے لیےقیام کا ارادہ کرے، اور نہ ہی کچھ قراءت کرے، اور جب وہ اپنی کمر جھکائے تو رکوع کی نیت نہ کرے اور تسبیح بھی نہ پڑھے،یہاں تک کہ وہ بالاجماع کافر نہ بنے۔ (بحر الرائق، جلد 1، صفحہ 302، دار الکتاب الاسلامی، بیروت)
لوگوں کو دکھانے کے ارادے سے اپنے نیک عمل کو ظاہر کرنا ریاکاری ہے اور ریاکاری حرام ہے، چنانچہ ’’احیاء علوم الدین‘‘ میں امام غزالی علیہ الرحمۃ اس پر تفصیلاً کلام کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:
اعلم أن الرياء حرام و المرائي عند الله ممقوت۔۔۔ فقوله تعالى فويل للمصلين الذين هم عن صلاتهم ساهون الذين هم يراءون۔۔۔ حد الرياء هو إرادة العباد بطاعة الله فالمرائي هو العابد و المراءى هو الناس المطلوب رؤيتهم بطلب المنزلة في قلوبهم۔
ترجمہ: جان لو کہ ریاکاری حرام ہے اور ریاکار اللہ عز و جل کے نزدیک ناپسند ہوتا ہے۔ پس اللہ تعالی کا فرمان ہے: تو ان نمازیوں کے لئے خرابی ہے جو اپنی نماز سے غافل ہیں، وہ جو دکھاوا کرتے ہیں۔۔۔ ریاکاری کی تعریف تو وہ اللہ عزوجل کی عبادت کے ذریعے بندوں کا ارادہ کرنا ہے۔ پس ریاکار وہ ہوتا ہے جو عبادت کرتا ہے، اور جن کے لیے دکھاوا کیا جا رہا ہو، یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے دل میں مرتبہ حاصل کرنے کیلئے ان کا دیکھنا مطلوب ہوتا ہے۔ (احیاء علوم الدین، صفحہ 297،293، دار المعرفة، بيروت)
غسل جنابت میں تاخیر کرنے اور اس کی وجہ سے نماز قضا کردینے سے متعلق بہارشریعت میں ہے: ’’جس پرغسل واجب ہے اُسے چاہیے کہ نہانے میں تاخیر نہ کرے۔ حدیث میں ہے جس گھر میں جنب ہو اس میں رحمت کے فرشتے نہیں آتے اور اگر اتنی دیر کر چکا کہ نماز کا آخر وقت آگیا تو اب فوراً نہانا فرض ہے، اب تاخیر کرےگا، گناہ گارہوگا۔۔۔ اور اگر نہانے میں اتنی تاخیر کی کہ دن نکل آیا اور نماز قضا کر دی تو یہ اور دِنوں میں بھی گناہ ہے اور رمضان میں اور زِیادہ‘‘۔ (بہار شریعت، جلد 1، حصہ 2، صفحہ 225، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتویٰ نمبر: FAM-803
تاریخ اجراء: 25 ذی الحجۃ الحرام 1446ھ / 28 جون 2025ء