ٹینکی میں مرا ہوا کوا ملا تو اس پانی سے پڑھی گئی نماز کا حکم

پانی کی ٹینکی سے مرا ہوا کوا ملا تو اس پانی سے پڑھی گئی نمازوں کا حکم ؟

دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اِس مسئلہ کے بارے میں کہ مسجدکی پانی والی ٹینکی کودھونے کے لیے کھولاگیا، تو اس میں کوا مرا ہوا پایا گیا، جو پھول کر پھٹ چکا تھا۔ کوا پانی میں کب گرا، یہ کسی کو معلوم نہیں، تو جو نمازی اُس پانی سے وضوکرتے رہے، کیا وہ وضوہوگیا؟ اور کیااس وضوسے ادا کی گئی نمازیں ہو گئیں یا انہیں دوبارہ پڑھنا ہوگا؟

نوٹ: ٹینکی کی مساحت یا مقدار دَہ در دَہ سے کم ہے۔

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

پانی کی ٹینکی دَہ در دَہ (یعنی 225 اسکوائر فٹ/Square Feet) سے کم ہو اور اس میں کوا گر کر مر جائے، نیز اُس کے گرنے اور مرنے کا وقت بھی معلوم نہ ہو، تو حکم شرعی یہ ہے کہ جب کوئی شخص اُسے سب سے پہلے مرا ہوا دیکھے گا، تو اُس کے دیکھنے کے وقت سے اُس پانی کو ناپاک شمار کیا جائے گا، خواہ وہ کوا پانی میں رہنے کے سبب پھول کر پھٹ چکا ہو، لہٰذا پوچھی گئی صورت میں مرا ہوا کوا دیکھنے سے پہلے اُس پانی سے وضو کرکے جو نمازیں ادا کی گئیں، سب درست ہوئیں، انہیں دوبارہ پڑھنا ضروری نہیں، البتہ کوا پانی میں پھولا اور پھٹا ہوا دیکھا گیا، تو تین دن رات کی نمازوں کو دوبارہ پڑھنا بہتر ہے۔

تفصیل یہ ہے کہ دَہ در دَہ (یعنی 225 اسکوائر فٹ/Square Feet) سے کم پانی میں کوا گر کر مر جائے اور وقت معلوم نہ ہو، تو ایسی صورت میں پانی کے ناپاک ہونے کے وقت کے متعلق فقہاءِ احناف کا اختلاف ہے، امام اعظم رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے نزدیک جانور کے پھول پھٹ جانے کی صورت میں تین دن رات کی نمازوں کا اعادہ کرنا لازم ہوگا۔ جبکہ امام ابو یوسف و محمد رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِما کے نزدیک جس وقت اُسے مرا ہوا دیکھا، اُسی وقت سے اُس پانی کو ناپاک شمار کیا جائے گا، خواہ وہ جانور پانی میں رہنے کے سبب پھول پھٹ چکا ہو۔ فقہاءِ کرام نے تیسیراً یعنی سہولت وآسانی کے پیشِ نظر اِسی قولِ صاحبین پر فتوی دیا ہے اوراسی کوراجح قرار دیا ہے۔

کنویں میں مرا ہوا جانور دیکھا اور گرنے کا وقت معلوم نہ ہو، تو اس بارے میں امام اعظم اور صاحبین کے اقوال کے متعلق فتاوی عالَم گیری میں ہے:

وإذا ‌وجد ‌في ‌البئر فأرة أو غيرها ولا يدرى متى وقعت ولم تنتفخ أعادوا صلاة يوم وليلة إذا كانوا توضئوا منها وغسلوا كل شيء أصابه ماؤها وإن كانت قد انتفخت أو تفسخت أعادوا صلاة ثلاثة أيام ولياليها وهذا عند أبي حنيفة رحمه اللہ وقالا: ليس عليهم إعادة شيء حتى يتحققوا متى وقعت“

 ترجمہ: جب کنویں میں چوہا وغیرہ پایا جائے اور یہ معلوم نہ ہو کہ کب گرا ہے اور پھولا پھٹا نہ ہو، تو ایک دن رات کی نمازوں کا اعادہ کریں گے، جبکہ انہوں نے اُس پانی سے وضو کیا ہو اور ہر اُس چیز کو دھوئیں گے، جسے وہ پانی لگا ہو اور اگر وہ پھول پھٹ گیا، تو تین دن رات کی نمازوں کا اعادہ کریں گے۔ یہ امام ابو حنیفہ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے نزدیک ہے اور امام ابو یوسف و محمد رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِما نے فرمایا: ان پر کسی چیز کا اعادہ لازم نہیں ہے حتی کہ وہ جان لیں کہ وہ کب گرا ہے۔ (الفتاوی الھندیۃ، جلد 1، کتاب الطھارة،الباب الثالث فی المیاہ، صفحہ 20،مطبوعہ کوئٹہ )

قولِ صاحبین پر فتوی ہونے کے متعلق علامہ علاؤ الدین حصکفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1088ھ/1677ء) لکھتےہیں:

قالا:من وقت العلم فلایلزمھم شیء قبلہ،قیل وبہ یفتی“

 ترجمہ: امام ابویوسف و محمد رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِما نے فرمایا:(نجاست گرنے کے)علم کے وقت سے پانی کوناپاک قراردیاجائے گا، لہٰذاجاننے سے پہلے (نمازوں کا اعادہ وغیرہ ) کچھ بھی لازم نہیں آئے گا، کہا گیا ہے کہ اسی پرفتوی دیا جاتا ہے ۔

درمختار کی اِس عبارت کے تحت علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1252ھ/1836ء) لکھتے ہیں:

(فلایلزمھم) ای اصحاب البئر شيء من اعادۃ الصلاۃ او غسل ما اصابہ ماؤھا کما صرح بہ الزیلعی وصاحب البحر والفیض و شارح المنیۃ۔۔۔(قیل بہ یفتی) قائلہ صاحب الجوھرۃ وقال العلامۃ قاسم فی تصحیح القدوری قال فی فتاوی العتابی قولھما ھو المختار“

ترجمہ: کنویں سے وضو کرنے والوں پر نمازوں کا لوٹانا یا جن چیزوں کو اُس پانی سے دھویا، اُنہیں دوبارہ دھونا، یہ کچھ بھی لازم نہیں، جیسا کہ امام زیلعی، صاحبِ بحر الرائق، صاحب ِفیض اور مُنیۃ کے شارح نے اِس کی صراحت فرمائی۔ کہا گیا کہ صاحبین کے قول پر ہی فتوی ہے، یہ کہنے والے صاحبِ جوہرہ ہیں اور علامہ قاسم بن قُطلُوْبُغا رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے تصحیح القدوری میں فرمایا کہ فتاوی عتابی میں ہے کہ صاحبین کا قول ہی مختار ہے۔ (ردالمحتار مع درمختار، کتاب الطھارۃ، فصل فی البئر، جلد1، صفحہ420، مطبوعہ کوئٹہ)

صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:1367ھ/1947ء) لکھتے ہیں: ”اور اگر وقت معلوم نہیں، تو جس وقت دیکھا گیا اس وقت سے نجس قرار پائے گا، اگرچہ پھولا پھٹا ہو، اس سے قبل پانی نجس نہیں اور پہلے جو وضو یا غسل کیا یا کپڑے دھوئے کچھ حرج نہیں، تیسیراً اسی پرعمل ہے۔(بھارشریعت، جلد 1، حصہ 2، صفحہ 340، مطبوعہ مکتبة المدینہ، کراچی)

جب کوا پھولا پھٹا نظر آیا، تو اُس نظر آنے سے ماقبل تین دن رات کی نمازوں کا اعادہ بہتر ہے،جیساکہ امامِ اہلِ سُنَّت، امام اَحْمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1340ھ/1921ء) سے ایک سوال ہوا کہ ایک کنواں ہے، جس کا پانی کبھی نہیں ٹوٹتا، اُس میں سے ایک چُوہا پھُولا ہوا بُودار نکلا، اب اس کے پاک کرنے کی کیا صورت ہے اور ایسی صورت میں نماز لوٹائی جائیگی یا نہیں؟ اگر لوٹائی جائے گی، تو کَے(کتنے)دن کی، مفتی بہ قول تحریر فرمائیں، تو آپ نے جواباً لکھا: ”پانی توڑنے کی کوئی حاجت نہیں، جتنا پانی اس میں موجود ہے، اُتنے ڈول نکال دیں، پاک ہو جائے گا، (اور)تین دن رات کی نماز کا اعادہ بہتر ہے۔ (فتاوی رضویہ، جلد 3، صفحہ 294، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مجیب : مفتی  محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر : FSD-9443

تاریخ اجراء 17صفر المظفر1447ھ/12اگست 2025ء