
مجیب:مولانا محمد حسان عطاری مدنی
فتوی نمبر:WAT-3741
تاریخ اجراء:23شوال المکرم 1446ھ/22اپریل2025ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ دوسجدوں کے درمیان اورقعدہ میں دونوں پاؤں کھڑےکر کےان پر اپنی مقعد رکھ کر بیٹھنا کیسا اگرچہ ایک پاؤں کھڑا کر کے اور ایک پاؤں بچھا کر بیٹھنے پر قدرت رکھتا ہو، ایسی صورت میں نماز کا کیا حکم ہو گا؟ شرعی رہنمائی فرما ئیں ۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
مردوں کے لیےقعدے اور دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھنے کا سنت طریقہ افتراش ہےیعنی الٹا پاؤں بچھا کراس پر بیٹھےاورسیدھا پاؤں کھڑا کرکے اس کی انگلیاں قبلہ رُ و رکھے، لہذا بلا عذر سوال میں بیان کردہ طریقے کے مطابق بیٹھنا، سنت طریقے کے مخالف ہونے کی وجہ سے مکروہ تنزیہی ہے، ہاں ! عذر کی وجہ سےاس طرح بیٹھنا بلاکراہت جائز ہے ۔
صحىح بخاری اور سنن نسائی میں حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، آپ فرماتے ہیں:
” إنما سنة الصلاة أن تنصب رجلك اليمنى، وتثني اليسرى“وزاد النسائی”واستقباله بأصابعها القبلة، والجلوس على اليسرى “
نماز میں سنت یہ ہے کہ تم اپنا دایاں پاؤں کھڑا رکھو اور بایاں پاؤں بچھاؤ،نسائی نے اتنا اضافہ کیا ہے:سیدھے پیر کی انگلیوں کو قبلہ رو رکھنا اوربائیں پاؤں پر بیٹھنا سنت ہے۔(صحیح البخاری، جلد01، صفحہ165،حدیث نمبر827،دار طوق النجاۃ)(سنن نسائی،جلد2،صفحہ236،حدیث نمبر1158،مطبوعہ حلب)
تحفۃ الفقہاء میں علامہ سمرقندی حنفی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں :
” السنة في القعدتين أن يفترض رجله اليسرى ويقعد عليها و ينصب اليمين نصبا ويوجه أصابع رجليه نحو القبلة وهذا عندنا“ ترجمہ : اور دونوں قعدوں میں بیٹھنے کا سنت طریقہ یہ ہے کہ اپنا الٹا پاؤں بچھائے اور اس پر بیٹھ جائے اور سیدھا پاؤں کھڑا کرکے انگلیوں کا رخ قبلہ کی جانب کرے اور یہ ہمارے نزدیک ہے ۔( تحفۃ الفقہاء ، جلد 1 ،صفحہ 136 ، طبع بیروت )
رد المحتار میں علامہ ابن عابدین شامی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں :
قال العلامة قاسم في فتاواه: وأما نصب القدمين والجلوس على العقبين فمكروه في جميع الجلسات بلا خلاف نعرفه إلا ما ذكره النووي عن الشافعي في قول له إنه يستحب بين السجدتين“
علامہ قاسم بن قطلوبغا نے اپنے فتاوی میں فرمایا:دونوں قدموں کو کھڑا رکھ کر ایڑیوں پر بیٹھنا نماز کے تمام جلسوں میں بالاتفاق مکروہ ہے،ہمیں اس بارےمیں کسی کے اختلاف کا علم نہیں،سوائے امام نووی کے کہ انہوں نے امام شافعی کے ایک قول کے مطابق دونوں سجدوں کے درمیان اس طرح بیٹھنے کو مستحب قرار دیا ہے۔(در مختار مع رد المحتار ،جلد01،صفحہ643-644، طبع دار الفکر)
مزید لکھتے ہیں :
” إنما الكراهة بترك الجلسة المسنونة كما علل به في البدائع“
ترجمہ:یہ مکروہ تنزیہی اس وجہ سے ہے کہ اس میں جلسہ مسنونہ کا ترک پایا جا رہا ہے جیسا کہ صاحب بدائع نے اس کی یہی علت بیان کی ۔(در مختار مع رد المحتار ،جلد01،صفحہ643، طبع دار الفکر)
جیسا کہ قعدے میں بلاعذرچار زانوں بیٹھنا مکروہ تنزیہی ہے ،چنانچہ تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے:
”)و) کرہ (التربع) تنزیھاً لترک الجلسۃ المسنونۃ (بغیر عذر) “
یعنی بلاعذرنماز میں چار زانو بیٹھنا مکروہ تنزیہی ہے کیونکہ یہ بیٹھنے کے مسنون طریقےکاترک ہے۔
مذکورہ بالا عبارت کے تحت رد المحتار میں ہے :
” (قولہ:بغیر عذر)اما بہ فلا؛ لان الواجب یترک مع العذر فالسنۃ اولی “
یعنی عذر کی صورت میں چارزانو بیٹھنا مکروہ نہیں کیونکہ جب عذر کے سبب واجب چھوڑا جاسکتا ہے تو سنت بدرجہ اولیٰ چھوڑی جاسکتی ہے۔( در مختار و رد المحتار ، جلد01،صفحہ 644، طبع بیروت )
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم