
مصدق:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: HAB-499
تاریخ اجراء: 26رجب المرجب1446ھ/27 جنوری2025ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ دار الافتاء اہلسنت کے ایک فتوی میں رکوع کی تسبیح تین بار سے کم پڑھنے کو مکروہ تنزیہی قرار دیا گیا تھا ، یہی بہارِ شریعت میں بھی موجود ہے ، لیکن ایک عالم صاحب کا کہنا ہے کہ رد المحتار کے مطابق ان تسبیحات کا پڑھنا سنت مؤکدہ ہے اور اس سے کم پڑھنے پر سنت مؤکدہ کے ترک کی تفصیل کے مطابق گناہ ہوگا ۔پوچھنا یہ ہے کہ کیا واقعی یہ سنت مؤکدہ ہے ؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
رکوع اور سجدے کی تسبیح کم از کم تین بار پڑھنا مسنون ہے ،اس سے کم نہیں پڑھنی چاہیے ، لیکن اگر کسی نے تین سے کم تسبیح پڑھی،تو اس کا اایسا کرنا کیسا ہے ،اس بارے میں فقہائے احناف کے تین طرح کے اقوال ہیں کہ رکوع اور سجدے کی تسبیح تین بار پڑھنا (1)فرض ہے ،(2)واجب ہے ، (3)سنت ہے ، اور سنت سے مراد سنتِ غیر مؤکدہ ہے، اس کا ترک مکروہ تنزیہی ہے،یہی مِن حیث الدلیل راجح قول ہے ۔
والتفصیل ذالک:
پہلا مؤقف یہ ہےکہ تسبیح تین بار فرض ہے ،یہ تلمیذِ امام اعظم ابومطیع البلخی رحمۃ اللہ تعالی علیہ کا مؤقف ہے۔ علامہ بدر الدین عینی وغیرہ رحمۃ اللہ تعالی علیہ لکھتے ہیں : ’’قال أبو مطيع تلميذ أبي حنيفة رحمه اللہ : فرض، ولم يجزه أقل من ثلاث “ترجمہ:ابو مطیع ، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے شاگرد کا قول فرضیت کا ہے اور تین سے کم تسبیح کفایت نہیں کریں گی۔(البنایہ، ج 2، ص 249، طبع دار الکتب العلمیہ ،بیروت)
لیکن یہ قول شاذ ہے، جیسا کہ علامہ ابراہیم حلبی رحمۃ اللہ تعالی علیہ ارشاد فرماتے ہیں:’’(إن لم يقل ثلث تسبيحات أو لم يمكث مقدار ذلك لا يجوز ركوعه) وهذا قول شاذ كقول أبي مطيع البلخي تلميذ أبي حنيفة رحمه اللہ بفرضية التسبيحات الثلاث في الركوع والسجود حتى لو نقض واحدة لايجوز ركوعه ولا سجوده ‘‘ ترجمہ: اگر اس نے رکوع میں تین تسبیحات نہ پڑھیں یا اتنی دیر نہ ٹھہرا رہا، تو اس کا رکوع جائز نہیں ہوگا ، اور یہ قول شاذ ہے، جیسا کہ امام ابو حنیفہ کے شاگردا مام ابو مطیع البلخی رحمۃ اللہ تعالی علیہما کا رکوع اور سجود میں تین بار تسبیح پڑھنے کا قول ہے، حتیٰ کہ اگر اس میں سے ایک بھی کم ہوجائے تو نہ اس کا رکوع جائز ہوگا نہ سجدہ ۔(غنیۃ المتملی، صفحہ 281، طبع کوئٹہ)
دوسرا مؤقف : تسبیح تین بار پڑھنا واجب ہے۔ یہ قول سب سے پہلے تلمیذ امام ابن الہمام، علامہ ابن امیر الحاج الحلبی رحمہ اللہ تعالی (المتوفی سنۃ ۸۷۹ھ) نے کیا ہے ، اور ان کی متابعت کرتے ہوئے محقق ابراہیم حلبی رحمۃ اللہ تعالی علیہ(المتوفی سنۃ ۹۵۶ ھ) نے فرضیت اور سنیت کے قول کا رد کرتے ہوئے وجوب کے قول کو ظاہر قرار دیا ہے ، لیکن دونوں ہی حضرات نے اس قول پر جزم نہیں کیا ۔
چنانچہ علامہ ابن امیر الحاج الحلبی رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں:’’لقائل أن یقول :لا یتعین العمل بالدلیلین فی جعل التسبیح سنۃ ،بل یکون ذلک أیضاً فی جعلہ واجباً ،للمواظبۃ الظاھرۃ من حالہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علیہ ،وللامر بہ متضافران علی الوجوب،فینبغی إذا ترکہ سھواً أن یخبرنا بالسجود،وإذا ترکہ عمداً یؤمر بالإعادۃ کما ھو الحکم فی کل صلاۃ أدیت مع الکراھۃ ‘‘ترجمہ: اعتراض کرنے والا یہ کہہ سکتا ہے کہ تسبیح کو سنت قرار دینےمیں ہی دونوں دلیلوں(قرآن وسنت کی دونوں نصوص) پر عمل کرنا متعین نہیں ہوتا، بلکہ اس کو واجب قرار دے کر بھی ممکن ہے، کیونکہ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عمل سےمواظبت ظاہرہ ہے اور اس کا امر بھی موجود ہے اور یہ دونوں وجوب کی تائید کررہی ہیں،تو مناسب ہے کہ جب کوئی اس کو سہوا ً ترک کرے تو ہم اسے سجدہ سہو کرنے کا حکم دیں اور جب کوئی اس کو جان بوجھ کرترک کرےتو نمازکولوٹانے کا حکم دیا جائے گا، جیسا کہ یہ حکم ہراس نماز میں ہے جو کراہت کے ساتھ ادا کی گئی ہو۔ (حلبۃ المجلی، جلد2صفحہ155،مطبوعہ بیروت)
علامہ ابراہیم حلبی رحمۃ اللہ تعالی علیہ لکھتے ہیں :’’کذا مارواہ أبو داود و الترمذی عن عقبۃ بن عامر قال: لما نزلت﴿ فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّکَ الْعَظِیۡمِ ﴾،قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: اجعلوھا فی رکوعکم ، ولما نزلت﴿سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰی﴾ ،قال: اجعلوھا فی سجودکم، لایجوز الزیادۃ بہ علی الکتاب وإن کان أمرا لکونہ خبرواحد، لکن بقي أن یقال ینبغی أن یفید الوجوب کما فی نظائرہ، ولم تقولوا بہ بل بالسنیۃ، فأجاب عنہ فی المستصفی بأنہ دل الدلیل علی عدم الوجوب أیضا لأنہ علیہ الصلوۃ السلام لما علم الأعرابی الصلوۃ لم یذکر لہ فی الرکوع والسجود شيئاً، ولقائل أن یقول إنما یلزم ذلک أن لو لم یکن فی الصلوۃ واجب خارج عما علمہ الأعرابی ، ولیس کذلک بل تعیین الفاتحہ وضم السورۃ وثلاث آيات ليس مما علمه الأعرابي بل ثبت بدليل آخر فلم لا يجوز أن يكون هذا كذلك ‘‘ترجمہ: اسی طرح جو امام ابو داود اور امام ترمذی رحمہمااللہ نے عقبہ بن عامر سے روایت کیا ہےکہ جب یہ آیت﴿ فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّکَ الْعَظِیۡمِ ﴾نازل ہوئی تو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اس کو اپنے رکوع میں شامل کرواور جب یہ آیت نازل ہوئی﴿سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰی﴾تو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اس کواپنے سجود میں شامل کرواور اس کے ذریعے کتاب اللہ پر زیادتی کرنا جائز نہیں، اگرچہ یہ امر ہے، کیونکہ یہ خبر واحد ہے، لیکن یہ اعتراض باقی رہ گیا کہ یہ وجوب کا فائدہ دے رہا ہے جیسا کہ اس کی نظائر میں ہے،لیکن آپ اس کے وجوب کے قائل نہیں، بلکہ سنیت کے قائل ہیں، مستصفی میں اس کا جواب یہ دیا کہ ایک دلیل عدم وجوب پر بھی دلالت کررہی ہے اور وہ یہ کہ نبی پاک علیہ الصلوٰۃ و السلام نے جب اعرابی کو نماز سکھائی تو رکوع و سجود میں اس حوالے سے کچھ بھی ارشاد نہیں فرمایا،اعتراض کرنے والا کہہ سکتا ہے کہ یہ بات تب لازم ہے کہ جب نماز میں کوئی ایسا واجب نہ ہو جو اعرابی کو سکھائےہوئے سے خارج ہو،حالانکہ معاملہ ایسا نہیں، بلکہ یہ متعین ہے کہ فاتحہ کا پڑھنا اور سورت اور تین آیات کا ملانا ان واجبات میں سے ہیں جو نبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے اعرابی کو نہیں سکھائے تھے، بلکہ یہ واجب دوسری دلیل سے ثابت ہے، تو پھر یہ کیوں جائز نہیں کہ (تسبیحات کا واجب ہونا) بھی اسی طرح ہو ۔(غنیۃ صفحہ282مطبوعہ کوئٹہ)
تیسرا قول یہ ہے کہ رکوع اور سجود میں تین بار تسبیح پڑھنا سنت ہے ، اور اس سنت سے مراد سنت غیر مؤکدہ ہے اور اس کا ترک مکروہ تنزیہی ہے، اجلہ فقہاء نے اس کی صراحت کی ہے اور حدیث میں وارد امر کو استحباب پر محمول کیا ہے اور یہ بھی بیان کیا ہے کہ اس عمل پر صراحتا مواظبت منقول نہیں ہے۔
مکروہ تنزیہی ہونے کی صراحت پر نصوص:
بحر الرائق میں ہے : ”كان الأمر للاستحباب كما صرح به غير واحد من المشائخ فعلى هذا فالمراد من الكراهة في قولهم لو ترك التسبيحات أصلا أو نقص عن الثلاث فهو مكروه كراهة التنزيه؛ لأنها في مقابلة المستحب “ترجمہ:حدیث میں واقع امر استحباب کے لیے ہے ،جیساکہ متعدد مشائخ نے اس کی صراحت کی ہے ،تو اس بناء پر اصلا تسبیحات نہ پڑھنے یا تین سے کم پڑھنے کی جو کراہت فقہاء کے قول میں واقع ہوئی، تو اس سے مراد کراہت تنزیہی ہے ،کیونکہ یہی مستحب کا مقابل ہے ۔(البحر الرائق، جلد 1 ،صفحہ 333، طبع دار الکتاب الاسلامی)
النہر الفائق میں ہے: ”وقد صرح غير واحد بأن الأمر للندب وعليه فقولهم: لو تركه ونقص عن الثلاث كره أي: تنزيهًا “ترجمہ: اور کئی فقہاء نے صراحت کی ہے کہ امر استحبابی ہے اور اسی پر ان کا قول مبنی ہے کہ اگر ان کو ترک کیا یا تين سے کم کیا تو مکروہ ہے یعنی تنزیہی ہے ۔ (النھر الفائق ،ج01،ص214، دار الكتب العلميہ)
فقیہ ابو السعود رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں:’’وهي أي كراهة تركه أو نقصه تنزيهية ‘‘ ترجمہ: اور تسبیحات کو ترک کرنے یا تین سے کم کرنے کی کراہت تنزیہی ہے ۔(ضوء المصباح شرح نور الایضاح، جلد 1، صفحه 300، طبع دار ابن حزم)
حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار میں ہے: ”ويكره أن ينقص عن الثلاثة تنزيها والتثليث أدنى السنة فمن شاء فليزد بعد أن يختم على وتر‘‘ ترجمہ : اور تین سے کم کرنا مکروہ تنزیہی ہے اور تین تسبیحات سنت کا ادنی درجہ ہے زیادہ کرنا چاہے تو کرے،لیکن طاق تعداد پر ختم کرے۔(حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار ،جلد 2، صفحہ 155، طبع دار الکتب العلمیہ )
صاحب در مختار نے تسبیحات کے ترک یا اس کے تین سے کم ہونے کو مکروہ تنزیہی فرمایا: اس پر علامہ طحطاوی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں:” هو المعتمد ‘‘ترجمہ:یہی معتمد ہے ۔(حاشیۃ الطحطاوی، جلد ،2 صفحہ 179 )
علامہ حصکفی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے الدر المنتقی فی الملتقی ،جلد 1، صفحہ 145 پر بھی اس کے مکروہ تنزیہی ہونے کی صراحت فرمائی ہے۔
علامہ علاء الدین الحصکفی رحمۃ اللہ تعالی علیہ تنویر الابصار پر اپنی ایک اور شرح خزائن الاسرار وبدائع الافکار میں لکھتے ہیں:’’إن تركه أو نقصه كره أي تنزيها لأنهافي مقابلة المستحب كما حرره في البحر ‘‘ ترجمہ: تسبیحات کو مطلقا ترک یا تین سے کم پڑھنا مکروہ تنزیہی ہے، کیونکہ یہ مستحب کے مقابلے میں ہے، جیسا بحر الرائق میں اس کی تحقیق کی ہے۔ (خزائن الاسرار شرح تنویر الابصار، صفحہ 88 ،مخطوط)
غنیۃ ذوی الاحکام اور حاشیۃ الخادمی علی درر الحکام میں ہے: واللفظ للأول :” والمراد كراهة التنزيه؛ لأنها في مقابلة المستحب كما في البحر‘‘ترجمہ: اور مراد کراہت تنزیہی ہے، کیونکہ یہی مستحب کا مقابل ہے ۔جیساکہ بحر میں ہے ۔(غنیۃ ذوی الاحکام ،ج 1 ،صفحہ 221، مطبوعہ تھران ، حاشیۃ الخادمی، صفحہ 54، مخطوط)
علامہ محمد بن عبد القادر الانصاری المدنی جن کے حواشی کو علامہ شامی رحمۃ اللہ تعالی علیہما حاشیۃ المدنی سے تعبیر کرتے ہیں ، تحفۃ الاخیار علی الدر المختار میں فرماتے ہیں:’’ويكره أن ينقص عن الثلاثة تنزيها ‘‘ ترجمہ: اور تین تسبیحات سے کمی کرنا ،مکروہ تنزیہی ہے۔ (تحفۃ الاخیار علی الدر المختار، جلد 1، صفحہ413، مخطوط )
حلبۃ الناجی علی الحلبی میں ہے:’’وأما النقص عن الثلاث فيكره تنزيها‘‘ ترجمہ : بہرحال تین سے کم تسبیحات پڑھنا مکروہ تنزیہی ہے۔(حلبۃ الناجی، صفحہ 297، طبع ترکیا)
ان تمام فقہائے کرام کی تصریحات سے یہ واضح ہے کہ یہاں کراہت سے مراد کراہت تنزیہی ہے، اور اسی کو صدر الشریعہ بدر الطریقہ مفتی امجد علی اعظمی رحمہ اللہ تعالی نے اختیار فرمایا ہے ۔
رد المحتار اور جد الممتار کی عبارات کا صحیح مفہوم:
جہاں تک رہا علامہ شامی رحمۃ اللہ تعالی علیہ کا اس کو اساءت فرمانا، تو اولاً:اس پر گزارش یہ ہے کہ علامہ شامی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے اس کے اساءت ہونے پر جزم نہیں فرمایا، کما سنوضح ان شاء اللہ تعالی اور اگر فرمایابھی ہو ،تو یہ ماقبل تمام فقہائے کرام کی تصریح کے خلاف ہے، اور امام اہلسنت رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے کلام سے ہرگز اس عبارت کی تائید نہیں ہوتی ۔ اولاً علامہ شامی رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی عبارت ملاحظہ فرمائیں :
رد المحتار میں ہے :’’والحاصل أن في تثليث التسبيح في الركوع والسجود ثلاثة أقوال عندنا، أرجحها من حيث الدليل الوجوب تخريجا على القواعد المذهبية، فينبغي اعتماده كما اعتمد ابن الهمام ومن تبعه رواية وجوب القومة والجلسة والطمأنينة فيهما كما مر. وأما من حيث الرواية فالأرجح السنية لأنها المصرح بها في مشاهير الكتب، وصرحوا بأنه يكره أن ينقص عن الثلاث وأن الزيادة مستحبة بعد أن يختم على وتر خمس أو سبع أو تسع ما لم يكن إماما فلا يطول وقدمنا في سنن الصلاة عن أصول أبي اليسر أن حكم السنة أن يندب إلى تحصيلها ويلام على تركها مع حصول إثم يسير وهذا يفيد أن كراهة تركها فوق التنزيه وتحت المكروه تحريما. وبهذا يضعف قول البحر إن الكراهة هنا للتنزيه لأنه مستحب وإن تبعه الشارح وغيره فتدبر‘‘ ترجمہ:حاصل یہ ہے کہ رکوع و سجود کی تسبیح تین بار پڑھنے میں ہمارے تین اقوال ہیں ، ان کی دلیل کے اعتبار سے جو راجح ہے، وہ مذہبی قواعد کی تخریج کی بناء پر وجوب ہے، تو اس پر اعتماد کرنا، مناسب ہے ،جیساکہ اس پر ابن الہمام اور ان کے متبعین نے قومہ جلسہ اور ان میں طمانینت کے وجوب کی روایت پر اعتماد کیا، اور روایت کے اعتبار سے زیادہ راجح سنت ہونا ہے کیونکہ تمام مشہور کتب میں اسی کی صراحت ہے اور فقہاء نے صراحت کی ہے کہ تین سے کم مکروہ ہے اور تین سے زیادہ مستحب ہے، مگر یہ کہ وہ پانچ یا سات یا نو کسی طاق عدد پر ختم کرے ،یہ اس وقت ہے، جبکہ وہ امام نہ ہو ، ورنہ طول نہ دے اور ہم نے سنن الصلوٰۃ میں امام ابو الیسر کے اصول سے یہ واضح کردیا ہے کہ سنت کا حکم یہ ہے کہ اس کی تحصیل پسندیدہ اور ترک کرنے پر کم گناہ کے ساتھ ملامت کا استحقاق ہے اور یہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اس کے ترک کی کراہت تنزیہ سے اوپر اور مکروہ تحریمی سے نیچے ہے اور اسی سے بحر کا قول کہ کراہت تنزیہی ہے کیونکہ یہ مستحب ہے ،ضعیف ہوجاتا ہے اگرچہ خود شارح اور ان کے علاوہ نے اس کی پیروی کی ہے تو غور کرلو ۔(رد المحتار،ج01،ص 494،دار الفکر )
اولاً یہ جان لیں کہ یہاں تین اقوال سے مراد ، فرض واجب اور سنت ہے ، نہ کہ واجب ، سنت اور مستحب ، جیسا کہ علامہ شامی رحمۃ اللہ تعالی علیہ آگے چل کر خود ارشاد فرماتے ہیں :’’ ويسبح فيه ثلاثا فإنه سنة على المعتمد المشهور في المذهب لا فرض ولا واجب كما مر ‘‘ ترجمہ: اور اس میں تین تسبیحات پڑھے کیونکہ یہ معتمد اور مشہور فی المذہب قول کی بناء پر سنت ہے، نہ کہ فرض یا واجب ،جیساکہ گزرا ۔ (رد المحتار،ج01،ص 496،دار الفکر )
ثانیاً: علامہ شامی رحمۃ اللہ تعالی علیہ یہاں ابن ہمام رحمۃ اللہ تعالی علیہ کا مذہب یہ بیان نہیں کر رہے کہ وہ تسبیحات رکوع وسجود کے وجوب کے قائل ہیں ، بلکہ وہ قواعد مذہب میں امر کے مطلقا وجوب کے ہونے کا اعتبار کرتے ہوئے اس قول کو ارجح قرار دینا مناسب فرما رہے اور اس پر بطور نظیر امام ابن ہمام رحمۃ اللہ تعالی علیہ کا قومہ اور جلسہ کے وجوب کی روایت کو ترجیح دینا بیان فرما رہے۔ اس پر ایک دلیل تو یہ ہے کہ علامہ حلبی رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے قبل وجوب کا قول کسی نے کیا ہو یہ غیر معلوم ہے ،جیسا کہ فقیہ بے مثل سیدی اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالی علیہ ’’جد الممتار ‘‘میں شامی کے اس مقام پر تعلیقاً فرماتے ہیں: ’’إن القول بالوجوب لا يعلم عمن تقدم العلامة محمد الحلبي، وكتب المذهب متونا وشروحا وفتاوى طافحة بتصريح السنية وعليها تدل الفروع فليكن التعويل‘‘ترجمہ:علامہ محمد حلبی سے پہلے وجوب کا قول کسی نے کیا ہو، یہ نا معلوم ہے اور مذہب کی تمام کتب متون ،شروح اور فتاوی تصریح سنت سے لبریز ہیں اور اسی پر فروع دلالت کرتی ہیں، تو یہ قابل اعتماد ہوا ۔ (جد الممتار ،جلد 3، صفحہ 199 ،طبع دار الکتب العلمیہ)
دوسری دلیل یہ ہے کہ امام ابن الہمام رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے اپنی تصنیف ’’ زاد الفقیر ‘‘ جو نماز کے احکام پر آپ کی کتاب ہے ، اس میں سنن الصلاۃ کے باب میں گیارہویں اور بارہویں سنت یہ ذکر فرمائی ہے :’’وقول: سبحان ربي العظيم في الركوع وقول سبحان ربي الأعلي في السجود ثلاثا ثلاثا ‘‘ترجمہ: اور رکوع میں تین بار سبحان ربی العظیم اور سجدے میں تین بار سبحان ربی الاعلی کہنا ۔ (زاد الفقير، صفحہ 130، طبع دار البشائر الاسلامیہ )
ثالثاً: علامہ شامی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے صفحہ 193 تا 195 تک اس پر تفصیل سے گفتگو فرمائی ہے کہ قومہ جلسہ اور ان میں تعدیل، مذہب کے مشہور قول پر سنت ہیں ، اور ایک قول وجوب کا ہے اور یہی قول امام ابن الہمام رحمہ اللہ تعالی نے اختیار فرمایا ہے،اسی بنیاد پر علامہ شامی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرما رہے ہیں کہ جس طرح اس مقام پر امام ابن ہمام نے وجوب کے قول پر اعتماد کیا ہے ، اسی طرح تسبیحات رکوع وسجود میں وجوب کا قول راجح ہونا چاہیے ۔ اسی پر اعلیٰ حضرت امام اہلسنت رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے تعلیقاً جواب ارشاد فرمایا کہ امام ابن ہمام رحمۃ اللہ تعالی علیہ کا وجوب کے قول کو ترجیح دینا اس لیے مختار ہے کہ وہ اصحاب ترجیح میں سے ہیں ، جبکہ ان کے شاگرد علامہ ابن امیر الحاج رحمۃ اللہ تعالی علیہ اس درجے کے نہیں اور علامہ ابراہیم حلبی رحمۃ اللہ تعالی علیہ تو یقیناً اصحاب ترجیح سے نہیں ہیں۔ امام اہلسنت رحمۃ اللہ تعالی علیہ اس عبارت سے علامہ شامی رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے کلام کی تائید نہیں، بلکہ اس کی صحیح توجیہ بیان فرما رہے ہیں ۔ عبارات ملاحظہ فرمائیں :’’والقول بوجوب الكل هو مختار المحقق ابن الهمام وتلميذه ابن أمير الحاج، حتى قال إنه الصواب، واللہ الموفق للصواب‘‘ترجمہ : اور تمام (یعنی جلسہ ، قومہ وتعدیل ارکان)کے وجوب کا قول محقق ابن الہمام اور ان کے شاگرد ابن امیر الحاج کا مختار ہے ،یہاں تک کہ انہوں نے فرمایا کہ یہی درست ہے ۔ (رد المحتار،ج01،ص 464،دار الفکر )
مزید فرماتے ہیں : ’’والحاصل أن الأصح رواية ودراية وجوب تعديل الأركان، وأما القومة والجلسة وتعديلهما فالمشهور في المذهب السنية، وروي وجوبها، وهو الموافق للأدلة، وعليه الكمال ومن بعده من المتأخرين وقد علمت قول تلميذه إنه الصواب‘‘ترجمہ: اور حاصل یہ ہے کہ روایت و درایت کے اعتبار سے تعدیل ارکان کا وجوب ہی اصح ہے اور قومہ و جلسہ اور ان میں تعدیل تو مشہور قول کے مطابق سنت ہے اور اس کا وجوب بھی مروی ہے اور یہی دلائل سے موافق ہے اور اسی پر ابن الہمام اور ان کے بعد کے متاخر ین فقہاء ہیں اور تم ان کے شاگرد کا قول جان چکے کہ انہوں نے فرمایا کہ یہی درست ہے ۔ (رد المحتار، جلد 2 ،صفحہ 194، طبع دار المعرفہ)
مبحوث عنہ مقام پر فرماتے ہیں:’’والحاصل أن في تثليث التسبيح في الركوع والسجود ثلاثة أقوال عندنا، أرجحها من حيث الدليل الوجوب تخريجا على القواعد المذهبية، فينبغي اعتماده كما اعتمد ابن الهمام ومن تبعه رواية وجوب القومة والجلسة والطمأنينة فيهما كما مر. وأما من حيث الرواية فالأرجح السنية لأنها المصرح بها في مشاهير الكتب‘‘ ترجمہ : حاصل یہ ہے کہ رکوع و سجود کی تسبیح تین بار پڑھنے میں ہمارے تین اقوال ہیں ، ان میں دلیل کے اعتبار سے جو راجح ہے، وہ مذہبی قواعد کی تخریج کی بناء پر وجوب ہے ،تو اس پر اعتماد کرنا مناسب ہے، جیساکہ اس پر ابن الہمام اور ان کے تابعین نے اعتماد کیا ،ان کی بنیاد اس بارے میں قومہ جلسہ اور طمانینت کے وجوب کی روایت ہے ۔ اور روایت کے اعتبار سے زیادہ راجح سنت ہونا ہے، کیونکہ تمام مشہور کتب میں اسی کی صراحت ہے۔ (رد المحتار ،جلد 2، صفحہ 242، طبع دار الفکر)
اسی پر امام اہلسنت رحمۃ اللہ تعالی علیہ تعلیق کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’أقول : ابن الهمام من أصحاب الترجيح بتصحيح العلماء ولا كذلك تلميذه المحقق ابن أمير الحاج أما الحلبي صاحب الغنية فمقطوع أنه ليس منهم‘‘ ترجمہ: میں کہتا ہوں کہ ابن الہمام علماء کی تصحیح کے مطابق اصحاب ترجیح سے ہیں اور ان کے شاگرد محقق ابن امیر الحاج کا یہ مقام نہیں ہے اور حلبی صاحب الغنیہ تو یقینی طور پر اصحاب ترجیح سے نہیں ۔(جد الممتار، جلد 3 ،صفحه 198، طبع دار الكتب العلميه)
علامہ شامی رحمۃ اللہ تعالی علیہ کا مختار کیا ہے؟
کیا رد المحتار سے علامہ شامی رحمۃ اللہ تعالی علیہ کا یہ قول مختار ثابت ہوتا ہے کہ تسبیحات رکوع کا ترک یا اس میں نقص اساءت کے درجے میں ہے اور اس پر اثم یسیر کا حکم ہوگا ؟ اگر غور کیا جائے تو علامہ شامی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے بھی اس قول پر جزم نہیں فرمایا، بلکہ فقط ایک بحث فرمائی ہے ۔ عبارت ملاحظہ فرمائیں:’’وقدمنا في سنن الصلاة عن أصول أبي اليسر أن حكم السنة أن يندب إلى تحصيلها ويلام على تركها مع حصول إثم يسير وهذا يفيد أن كراهة تركها فوق التنزيه وتحت المكروه تحريما. وبهذا يضعف قول البحر إن الكراهة هنا للتنزيه لأنه مستحب وإن تبعه الشارح وغيره فتدبر‘‘ ترجمہ: ہم نے سنن الصلوٰۃ میں امام ابو الیسر کے اصول سے یہ واضح کردیا ہے کہ سنت کا حکم یہ ہے کہ اس کی تحصیل پسندیدہ اور ترک کرنے پر کم گناہ کے ساتھ ملامت کا استحقاق ہے اور یہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اس کے ترک کی کراہت تنزیہی سے اوپر اور مکروہ تحریمی سے نیچے ہے اور اسی سے بحر کا قول کہ کراہت تنزیہی ہے، کیونکہ یہ مستحب ہے ،ضعیف ہوجاتا ہے اگرچہ خود شارح اور ان کے علاوہ نے اس کی پیروی کی ہے ،تو غور کرلو ۔ (رد المحتار،ج01،ص 494،دار الفکر )
یہاں علامہ شامی رحمۃ اللہ تعالی علیہ امام ابو الیسر رحمہ اللہ تعالی کے اصول سے ایک اصل بیان کر رہے ہیں کہ سنت کا حکم یہ ہے کہ اس کے پورا کرنےکی ترغیب دلائی جائے گی اور اس کے ترک پر ملامت ہوگی اور اس پر اثم یسیر ملے گا ۔ اگر امام ابو الیسر رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے اس قول کو دیکھیں ،تو اس کے مطابق تسبیحات کا ترک مکروہ تنزیہی سے اوپر اور تحریمی سے نیچے ہونا چاہیے، لیکن ظاہر ہے یہ اس صورت میں ہوگا جب اس کے سنت مؤکدہ ہونے پر کوئی دلیل موجود ہو یا کم از کم مذہب میں کوئی قول موجود ہو ، حالانکہ ایسا بظاہر نہیں ورنہ علامہ شامی رحمۃ اللہ تعالی علیہ وہ تصریح پیش فرمادیتے ، اسی وجہ سے علامہ شامی رحمۃ اللہ تعالی علیہ ’’فقط وهذا يفيد ...الخ‘‘ فرما رہے ہیں، اپنی جانب نسبت نہیں کر رہے ۔ اس کے برعکس صاحب بحر رحمہ اللہ تعالی نے اس کے مستحب ہونے کی تصریح فرمائی ہے ، اگر امام ابو الیسر رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے اصول کا لحاظ کرتے ہوئے اس کو سنت مؤکدہ قرار دیں ، تو صاحب بحر کے قول کو ضعیف قرار دیا جاسکتا ہے، لیکن صاحب بحر نے اس كے مکروہ تنزیہی ہونے کی دلیل ذکر کی ہے کہ یہ امر استحبابی ہے ، جیسا کہ علامہ شامی رحمۃ اللہ تعالی علیہ خود اس بات کی تصریح فرماتے ہیں :’’بناء على أن الأمر بالتسبيح للاستحباب بحر ‘‘اور صاحب بحر نے امر استحبابی اپنی طرف سے قرارنہیں دیا، بلکہ ان سے قبل ائمہ اس کی تصریح کرتے آئے ہیں، جیسا کہ نہر الفائق کی عبارت میں اس کی صراحت گزر چکی ہے، اور آپ رحمہ اللہ تعالی کے بعد متعدد فقہا نے آپ کی اتباع کی ہے ، جن میں صاحب نہرالفائق، صاحب در مختار ، علامہ شرنبلالی، علامہ طحطاوی ، علامہ نوح آفندی، علامہ خادمی ، علامہ مصطفی بن محمد صاحب حلبۃ الناجی، مفتی ابو السعود اور صدر الشریعہ وغیرہ رحمہم اللہ تعالی شامل ہیں۔ اور اگر اس تقریر کو تسلیم نہ بھی کیا جائے اور علامہ شامی رحمۃ اللہ تعالی علیہ کا مؤقف اساءت کا ہی تسلیم کیا جائے تو بھی علامہ شامی رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے ماقبل ومابعد فقہائے کرام مکروہ تنزیہی ہونے کی صراحت کرچکے ہیں ، اور مشائخ، حدیث میں وارد امر کو استحبابی بیان فرما چکے ہیں اور اسی کو صدر الشریعہ مولانا امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے اختیار فرمایا ہے ۔
تبیین الحقائق میں ہے :”والأمر قد يكون للاستحباب فيحمل عليه وإنما يكره أن ينقص عن الثلاث لما روينا من الحديث“ترجمہ: اور امر کبھی استحباب کے لیے ہوتا ہے، تواسی پر یہ محمول ہے کہ تین سے کم تسبیحات مکروہ ہیں، جیساکہ ہم نے حدیث ذکر کی ۔(تبیین الحقائق،جلد1،صفحہ115،دارالکتاب الاسلامی)
ہدایہ میں ہے:”تسبيحات الركوع والسجود سنة لأن النص تناولهما دون تسبيحاتهما فلا يزاد على النص“رکوع وسجدے کی تسبیحات کہنا سنت ہے، کیونکہ نص رکوع اور سجدے کے حکم پر ہے، نہ کہ ان کی تسبیحات پر تو نص پر زیادتی نہیں کی جائے گی۔(ھدایہ،جلد1،صفحہ52،داراحیاء التراث العربی)
فتح القدیر میں ہے:”عدم الزيادة لا يستلزم القول بالسنية لجواز الوجوب والمواظبة، والأمر من قوله فليقل اجعلوها يقتضيه إلا لصارف، بخلاف قول أبي مطيع بافتراضها فإنه مشكل جدا.وقيل في الصارف إنه عدم ذكرها للأعرابي عند تعليمه فيكون أمر استحباب، قالوا: ويكره تركها ونقصها من الثلاث والتصريح بأنه أمر استحباب يفيد أن هذه الكراهة كراهة تنزيه‘‘ ترجمہ:عدم زیادت سنت کے قول کو لازم نہیں کرتی ،کیونکہ وجوب و مواظبت ممکن ہے اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ’’ فلیقل اجعلوھا ‘‘ بھی اسی کا تقاضا کرتا ہے، الایہ کہ کوئی دلیل صارف موجود ہو برخلاف امام ابومطیع بلخی کے قول ِ فرضیت کے ، کیونکہ وہ تو بہت ہی مشکل ہے۔ اور دلیل صارف کے متعلق یہ کہاگیا ہے کہ وہ نماز کی تعلیم کے وقت ان چیزوں کا اعرابی کے سامنے ذکر نہ فرمانا ہے، تو یہ امر استحبابی ہوگا ۔فقہاء نے فرمایا کہ ان تسبیحات کا ترک یا تین سے کم ہونا، مکروہ ہوگا اور امر استحبابی کی تصریح کا تقاضا بھی یہی ہے کہ یہ کراہت تنزیہی ہے ۔(فتح القدیر،جلد1،صفحہ307،دارالفکر)
نیز خود علامہ شامی رحمۃ اللہ تعالی علیہ در مختار کےقول(’’ ویسبح فیہ ثلاثا کما مر‘‘ ترجمہ اور سجدہ میں تین بار تسبیح پڑھے گا، جیسا کہ گزر چکا ) کے تحت لکھتے ہیں : ’’أي نظير ما مر في تسبيح الركوع من أن أقله ثلاث ،وأنه لو تركه أو نقصه كره تنزيها ، وقدمنا الخلاف في ذلك ‘‘ ترجمہ: یعنی یہ مسئلہ اسی کی نظیر ہےجو ماقبل میں رکوع کی تسبیح کے حوالے سے گزر چکا کہ اس میں سنت کا کم از کم درجہ تین مرتبہ پڑھنا ہے ، اور اگر کسی نے سرے سے پڑھا ہی نہیں یا تین سے کم پڑھا، تو یہ مکروہ تنزیہی ہے ، اور ہم نے اس میں خلاف کا ذکر کردیا ہے۔(رد المحتار ،جلد 1، صفحہ 504، طبع دار الفکر، بیروت)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم