
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ عینِ مسجد، فنائے مسجد یا خارجِ مسجد میں اگر صف کے درمیان میں کوئی دیوار یا ستون موجود ہو تو دیوار یا ستونوں کے درمیان نماز پڑھنے کا کیا حکم ہوگا؟ اور ستونوں کے درمیان نماز پڑھنے سے کیا نماز پر کوئی اثر ہوگا؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
منفرد یعنی تنہا نماز پڑھنے والا شخص مسجد میں کسی بھی جگہ پر دیوار یا ستونوں کے درمیان کھڑے ہوکر نماز پڑھ سکتا ہے، اُس کیلئے اصلاً کوئی ممانعت نہیں۔ البتہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھتے ہوئے عین مسجد، فنائے مسجد یا خارج مسجد کی جس صف میں بھی دیوار یا ستون ہوں، تو وہاں صف بنانے کا حکم یہ ہے کہ بلا ضرورت شرعی دیوار یا ستونوں کے درمیان صف بندھی کرنا مکروہ و ناجائز عمل ہے، احادیث مبارکہ میں ستونوں کے درمیان صف بنانے سے ممانعت فرمائی گئی ہے، ہاں اگر کوئی ضرورت ومجبوری ہو جیسے نمازیوں کی کثرت کی وجہ سے مسجد تنگ پڑرہی ہو جیسا کہ عام طور پر جمعہ و عیدین میں ہوتا ہے یا بارش کی وجہ سے پچھلی صفیں چھوڑ کر اگلی صفوں میں ستونوں کےدرمیان صفیں بنائی جائیں، تو اب عذر کی وجہ سے کوئی کراہت نہیں ہوگی۔ نیز ستونوں کے درمیان صف چاہے عذر شرعی کی وجہ سے بنائی جائےیا بغیر عذر کے، بہرحال اس سے نماز پر کوئی اثر نہیں ہوگا، یعنی نماز درست ہوجائے گی اور اعادے کی ضرورت بھی نہیں ہوگی، ہاں البتہ بغیر عذر شرعی کے یہ عمل مکروہ وناجائز ہوگا کہ اس میں قطع صف ہوگی اور قطع صف حرام ہے۔
ستونوں کے درمیان صف بنانے کی ممانعت سے متعلق سنن ابنِ ماجہ کی حدیث مبارکہ ہے:
’’عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كُنَّا نُنْهَى أَنْ نَصُفَّ بَيْنَ السَّوَارِي عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللہ صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ، وَ نُطْرَدُ عَنْهَا طَرْدًا‘‘
ترجمہ: حضرت معاویہ بن قرہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے فرمایا کہ ہمیں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں دو ستونوں کے درمیان صف باندھنے سے منع فرمایا جاتا اور وہاں سے ہٹادیاجاتا تھا۔ (سنن ابن ماجہ، جلد 1، صفحہ 320، رقم الحدیث: 1002، دار إحياء الكتب العربية)
نبی کریم ﷺ کے زمانے میں ستونوں کے درمیان کھڑے ہوکر نماز پڑھنے سے اجتناب کیا جاتا تھا، چنانچہ جامع ترمذی کی حدیث پاک ہے:
’’عَنْ عَبْدِ الحَمِيدِ بْنِ مَحْمُودٍ، قَالَ: صَلَّيْنَا خَلْفَ أَمِيرٍ مِنَ الأُمَرَاءِ، فَاضْطَرَّنَا النَّاسُ فَصَلَّيْنَا بَيْنَ السَّارِيَتَيْنِ فَلَمَّا صَلَّيْنَا، قَالَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ: كُنَّا نَتَّقِي هَذَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ‘‘
ترجمہ: عبدالحمید بن محمود کہتے ہیں: ہم ایک امیر (حاکم) کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے، تو لوگوں (کا ہجوم ہوگیا، اور انہوں) نے ہمیں ستونوں کے درمیان نماز پڑھنے پر مجبور کردیا۔ جب ہم نماز سے فارغ ہوئے تو حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہم رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں اس (یعنی ستونوں کے درمیان نماز پڑھنے) سے بچا کرتے تھے۔ (جامع ترمذی، جلد 1، صفحہ 304، رقم الحدیث: 229، دار الغرب الإسلامي، بيروت)
ستونوں کےدرمیان صف بنانے کی ممانعت اس وقت ہے کہ جب مسجد کشادہ ہو،ورنہ اگرجگہ تنگ ہو تو کوئی کراہت نہیں، چنانچہ شرح صحیح البخاری لابن بطال میں ہے:
’’و قال ابن مسعود: لا تصفوا بين الأساطين، و كرهه حذيفة، و إبراهيم، و قال إبراهيم: لا تصلوا بين الأساطين و أتموا الصفوف،۔۔۔ قال ابن حبيب: و ليس النهى عن تقطيع الصفوف إذا ضاق المسجد، و إنما نهى عنه إذا كان المسجد واسعًا‘‘
ترجمہ: حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ستونوں کے درمیان صف نہ باندھو۔ اور حضرت حذیفہ اور حضرت ابراہیم (نخعی) نے بھی اسے ناپسند جانا۔ اور حضرت ابراہیم (نخعی) علیہ الرحمۃ نے فرمایا: ستونوں کے درمیان نماز نہ پڑھو اور صفوں کو مکمل کرو۔ ابن حبیب نے فرمایا: صفوں کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے سے اس وقت ممانعت نہیں جب مسجد تنگ ہو، ممانعت اس وقت ہے جب مسجد کشادہ ہو۔ (شرح صحیح البخاری لابن بطال، جلد 2، صفحہ 134، مطبوعہ ریاض)
ستونوں کے درمیان صف بندی میں قطع صف ہے، حالانکہ صفوں کی درستگی مطلوب ہے، اور یہ حکم جماعت سے نماز پڑھنے میں ہے، تنہا نماز پڑھنے والے کیلئے نہیں، چنانچہ عمدۃ القاری میں ہے:
’’إذا كان منفردا لا بأس في الصلاة بين الساريتين، إذا لم يكن في جماعة، و قيد بغير جماعة لأن ذلك يقطع الصفوف، و تسوية الصفوف في الجماعة مطلوبة‘‘
ترجمہ: جب کوئی تنہا ہو تو ستونوں کے درمیان نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں، بشرطیکہ وہ جماعت میں شامل نہ ہو۔ اس کو بغیر جماعت کی قید کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کیونکہ جماعت میں ستونوں کے درمیان کھڑا ہونا صفوں کو کاٹنے کا سبب بنتا ہے، جبکہ جماعت میں صفوں کی درستگی (صف بندی) مطلوب ہے۔ (عمدۃ القاری، جلد 1، صفحہ 284، دار إحياء التراث العربي، بيروت)
سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فتاوی رضویہ میں فرماتے ہیں: ’’بے ضرورت مقتدیوں کا دَر میں صف قائم کرنا یہ سخت مکروہ کہ باعث قطعِ صف ہے اور قطع صف ناجائز، ہاں اگر کثرت ِجماعت کے باعث جگہ میں تنگی ہو اس لئے مقتدی دَر میں اور امام محراب میں کھڑے ہوں تو کراہت نہیں۔ یونہی اگر مینہ کے باعث پچھلی صف کے لوگ دروں میں کھڑے ہوں تو یہ ضرورت ہے والضرو رات تبیح المحظورات (سخت ضرورت ممنوعات کو مباح کردیتی ہے۔)۔۔۔۔ (کچھ آگے چل کر اراشاد فرماتے ہیں) زید نے دَر میں نماز ناجائز بتائی یہ زیادت ہے، ناجائز نہیں، ہاں امام کو مکروہ ہے۔ یونہی منفرد کو اس حکم میں شریک کرنا ٹھیک نہیں، خود حضور اکرم (صلی اللہ علیہ و سلم) جب کعبہ معظمہ تشریف لے گئے، دوستونوں کے درمیان نماز پڑھی۔‘‘ (فتاوی رضویہ، جلد 6، صفحہ 131- 136، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتویٰ نمبر: FAM-735
تاریخ اجراء: 08 ذی القعدۃ الحرام 1446 ھ / 06 مئی 2025 ء