صفوں کے درمیان فاصلہ ہو تو نماز کا حکم

مسجد سے باہر صفوں کے درمیان فاصلہ ہو تو نماز کا حکم؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہماری مسجد کا ایک ہال ہے، ایک چھوٹا سا صحن ہے اور اس کی چاردیواری بھی چھوٹی سی ہے، اس صحن کے اوپر ہم نے شیڈ لگایا ہوا ہے جو مسجد کی چاردیواری سے باہر بھی سایہ دیتا ہے، جمعہ والے دن چونکہ نمازی زیادہ ہوتے ہیں، اس لئے ہم مسجد کی اس چاردیواری کے باہر بھی چاردیواری سے متصل صفیں بچھا دیتے ہیں جن میں کچھ صفیں تو شیڈ کے سایہ کے نیچے آتی ہیں مگر کچھ صفیں شیڈ سے باہر دھوپ میں بچھائی جاتی ہیں، جو نمازی آخر میں آتے ہیں جنہیں ہال، صحن اورمسجد کے باہر شیڈ کے سائے کے نیچے جگہ نہیں ملتی تو وہ دھوپ والی صفیں اٹھا کر تقریبا پانچ صفوں کے فاصلے کے بعدپیچھے موجود درختوں کے سایہ میں بچھا لیتے ہیں اور وہیں سے امام کی اقتدا کرتے ہیں جبکہ بیچ میں تقریبا پانچ صفوں کی جگہ دھوپ کی وجہ سے خالی رہتی ہے، انتظامیہ سے بات کی گئی ہے کہ جمعہ والے دن اس خالی رہنے والی جگہ پر بھی ترپال، ٹینٹ وغیرہ سے سایہ کا انتظام کردیا جائے تو مسجد سے باہر بھی صفیں متصل رہیں گی، مگر انتظامیہ نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی، اب سوال یہ ہے کہ جو نمازی پانچ صفوں کا فاصلہ چھوڑ کردرختوں کےنیچے نماز پڑھتے ہیں، کیا ان کی نماز ہوجاتی ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

احناف کے نزدیک اقتداء کیلئے یہ شرط ہے کہ امام اور مقتدی کا مکان ایک ہو۔ مسجد و فنائے مسجد کے علاوہ خارجِ مسجد والی جگہ میں جب صفیں متصل نہ ہوں اور صفوں کے درمیان راستے یا نہر وغیرہ کا اتنافاصلہ آ جائے کہ اس میں سے بیل گاڑی گزرجائے گی تو اس سے فاصلے کے بعد بننے والی صفوں کا مکان الگ ہوجاتا ہے۔ ایسی صورت میں مکان الگ ہونے کی وجہ سے مقتدی کی اقتداء درست نہیں ہوتی۔ پوچھی گئی صورت میں بھی مسجد کی چاردیواری سے باہرجو صفیں چار دیواری سے متصل شیڈ کے سائے کے نیچے بنائی جاتی ہیں، ان صفوں میں نماز پڑھنے والوں کی نماز تو درست ہے کہ وہاں تک صفیں متصل ہیں مگر جوصفیں، پانچ صفوں کا فاصلہ چھوڑکردرختوں کے سائے کے نیچے بنائی جاتی ہیں، وہ صفیں متصل نہیں ہیں، کہ بیچ میں پانچ صفوں کا اتنا فاصلہ بن جاتا ہے کہ اس میں سے بیل گاڑی گزرجائے۔ لہذا مکان الگ ہوجانے کی وجہ سے ان صفوں میں نماز پڑھنے والوں کی نماز نہیں ہوگی۔

تنبیہ: پنجاب کے بہت سارے علاقوں میں گرمیوں میں شدید گرمی پڑتی ہے، ایسی گرمی میں دھوپ میں کھڑے ہوکرنماز پڑھنا یقینا آزمائش کا باعث ہے اس لئے انتظامیہ کو چاہیے کہ جمعہ والے دن دھوپ والی جگہ پر بھی ترپال یا ٹینٹ وغیرہ کا انتظام کرے،اگرچہ مسجد کے چندے سے ہی کیا جائے کہ مسجد کا عمومی چندہ نمازیوں کی ضرورت والے کام میں لگایا جاسکتا ہے اور مسجدوں کی صفیں، مسجد کے نمازیوں کےلئے مسجد سے باہر ایسے مواقع پر بچھانا ہر جگہ رائج ہے۔اگر مسجد کے چندے میں گنجائش نہ ہو یا ویسے ہی انتظامیہ توجہ نہیں دیتی تو پھر بعد میں آنے والے نمازیوں پرلازم ہوگا کہ وہ صفیں پیچھے ہرگز نہ لے جائیں بلکہ جمعہ کی نماز شہر کی کسی اور مسجد میں جا کرپڑھیں۔

امام و مقتدی کے درمیان راستہ، اقتداء میں خلل ڈالتا ہے۔ مصنف ابن ابی شیبہ اور مصنف عبدالرزاق میں ہے:

”و اللفظ للآخر“ عن عمر بن الخطاب أنه قال فی الرجل يصلی بصلاة الامام قال:اذا كان بينهما نهر أو طريق أو جدار فلا يأتم به“

ترجمہ: حضرت عمربن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہے کہ انہوں نے امام کی اقتداء کرنے والے کے بارے میں فرمایا کہ جب امام ومقتدی کے درمیان نہر یا راستہ یا دیوار ہو تو مقتدی اقتداء نہ کرے۔ (المصنف لعبدالرزاق، جلد 3، صفحہ 81، مطبوعہ کراچی)

اقتداکی شرط یہ ہے کہ امام و مقتدی کا مکان ایک ہو۔ بدائع الصنائع میں ہے:

و منها اتحاد مكان الامام و المأموم، و لأن الاقتداء يقتضی التبعية فی الصلاة، والمكان من لوازم الصلاة فيقتضی التبعية فی المكان ضرورة، وعند اختلاف المكان تنعدم التبعية فی المكان فتنعدم التبعية فی الصلاة لانعدام لازمها۔۔۔۔۔وأصله ما روی عن عمر رضی الله عنه موقوفا عليه و مرفوعا إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم أنه قال:من كان بينه وبين الامام نهر أو طريق أو صف من النساء فلا صلاة له

ترجمہ:اقتداء کی شرائط میں سے ہے کہ امام اورمقتدی کا مکان ایک ہو،کیونکہ اقتداء اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ مقتدی نماز میں،امام کے تابع ہوکررہےاور مکان، نماز کے لوازمات میں سے ہی ہے تو اب اس بات کا بھی تقاضاہوگا کہ مقتدی مکان میں بھی ضرور امام کے تابع ہوکر رہے، جب مکان الگ الگ ہوجائیں تو تابع ہونا ختم ہوجاتا ہے، جب مکان میں تابع ہونا ختم ہوگیا تو اب نماز میں بھی تبعیت ختم ہوجائے گی کیونکہ نماز کے لوازمات میں تبعیت نہ رہی۔۔۔۔۔ اس کی اصل وہ حدیث ہے جو حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے موقوفا اور مرفوعا دونوں طرح سے مروی ہے کہ فرمایا: جس مقتدی اور اس کے امام کے درمیان نہر یا راستہ یا عورتوں کی صف ہو، اس مقتدی کی نماز نہیں ہے۔ (بدائع الصنائع جلد 1، صفحہ 628، مطبوعہ بیروت)

خارجِ مسجد میں صفوں میں اتصال نہ ہو تو اقتدادرست نہیں ہوتی اور نماز نہیں ہوتی۔اسی بدائع الصنائع میں ہے:

و لو اقتدی خارج المسجد بامام فی المسجد، ان کانت الصفوف متصلۃ جاز والا فلا۔

ترجمہ:اگر مسجد کے امام کی خارجِ مسجد میں اقتداء کی تو اگر صفیں متصل ہوں تو جائز ہے ورنہ جائز نہیں ہے۔ (بدائع الصنائع، جلد 1، صفحہ 630، مطبوعہ بیروت)

فتح القدیر میں ہے:

و إذا قاموا مع الامام على الطريق صفوفا و صف بينه و بين الذی قدامه قدر العجلة فسدت عليه وعلى جميع من خلفه

ترجمہ: اگر امام کے ساتھ مقتدی راستے میں صفیں بنا کرکھڑے ہوگئے اور ایک صف ایسی ہے کہ اس کے اور اس سے آگے والوں کے درمیان اتنی مقدار خالی ہے جس میں سے بیل گاڑی گزرسکے تو اس صف والوں کی نماز اور اس صف سے پیچھے جتنے بھی ہیں، سب کی نماز فاسد ہوجائے گی۔ (فتح القدیر، جلد 1، صفحہ 393، مطبوعہ بیروت)

بہارشریعت میں ہے: ”امام و مقتدی کے درمیان اتنا چوڑا راستہ ہو جس میں بیل گاڑی جاسکے، تو اقتدا نہیں ہوسکتی۔ يوں ہی اگر بیچ میں نہر ہو جس میں کشتی یا بجرا چل سکے تو اقتدا صحیح نہیں، اگرچہ وہ نہر بیچ مسجد میں ہو اور اگر بہت تنگ نہرہو جس میں بجرا بھی نہ تیر سکے، تو اقتدا صحیح ہے۔ “(بہار شریعت، جلد 1، حصہ 3، صفحہ 563، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی)

نمازیوں کی ضرورت والے کام میں مسجد کی آمدنی استعمال ہوسکتی ہے۔حبیب الفتاوی میں ہے: ”ضروریات مسجد کا لفظ بہت عام ہے، اس میں شعائرِ وقف اور عمارتِ وقف او رمصالحِ مسجدجو اقوالِ فقہاء میں آئے ہیں، سب داخل ہیں۔ بلفظِ دیگر اس میں مسجد کی تعمیرومرمت اور مسجد کے تحفط و بقاء اور اس کی آبادی ونمازیوں اور عبادت کرنے والوں اور ذکر و تلاوت کرنے والوں کیلئے جو جو چیز ضروری ہو، اس پر جائداد موقوفہ کی آمدنی خرچ کی جاسکتی ہے۔“ (حبیب الفتاوی، جلد 3، صفحہ 210، مطبوعہ لاہور)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: ابو محمد محمد فراز عطاری مدنی

فتویٰ نمبر: OKR- 0018

تاریخ اجراء: 26 ذو الحجۃ الحرام 1446ھ / 23 جون 2025ء