Safar mein Jane aur Lotne par Qaza Hone Wali Namazon ka Hukum

سفر میں جانے پر  اور واپس شہر پہنچنے پر قضا ہونے والی نماز کا حکم

مجیب:مولانا جمیل احمد غوری عطاری مدنی

فتوی نمبر:Web-1865

تاریخ اجراء:24صفر المظفر1446ھ/30اگست2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   (1)میں 110 کلو میٹر سفر کے ارادے سے اپنے شہر سے نکلا، اس وقت ظہر کا وقت تھا، میرا ارادہ تھا کہ شہر سے نکلنے کے بعد ادا کر لوں گا،  لیکن دورانِ سفر میں اس نماز کو ادا نہ کر سکا، اب اس کی قضا کرنی ہے، تو کتنی رکعات قضا کرنی ہوں گی؟

   (2) میرا دوسرا سوال یہ ہے کہ  سفر کر کے واپس اپنے گھر آرہا تھا اور ٹرین میں نمازِ عصر ادا نہیں کر سکا، ٹرین جب میرے شہر میں داخل ہوئی، اس وقت نماز کا وقت ختم ہونے میں پانچ منٹ باقی تھے، ٹرین کے اسٹیشن پر پہنچنے سے پہلے ہی نماز کا وقت ختم ہوچکا تھا، اس نماز کی قضا کرتے ہوئے کتنی رکعات ادا کرنی ہوں گی؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں پہلی صورت میں دورانِ سفر قضا ہونے والی چار رکعت  کو جب بھی ادا کیا جائے تو دو ہی پڑھی جائیں گی جبکہ دوسری صورت میں شہر کی حدود میں  داخل ہونے کے بعد  چار رکعت والی نماز کا وقت ختم ہوا تو اس کی قضا چار رکعات ہی پڑھی جائیں گی۔

   اس مسئلے کی تفصیل یہ ہے کہ:کوئی شخص 92 کلومیٹر یا اس سے زائد سفر کے ارادے سے نکلا تو اپنے شہر کی شرعی حدود یعنی(شہر کی  آبادی اور اس سے متصل فنائے شہر) سے نکلنے کے ساتھ ہی  وہ مسافر بن جاتا ہے اور اس پر چار رکعت والی فرض نمازوں میں  قصر کرنا واجب ہوتا ہے، یہ حکم اس وقت تک رہتا ہے جب تک وہ  کسی جگہ 15 دن یا اس سے زائد ٹھہرنے کی پکی نیت نہ کرلے یا واپسی لوٹتے وقت اپنے شہرکی حدود میں داخل نہ ہوجائے یعنی واپسی میں  اپنے شہر کی حدود میں داخل ہونے کے  بعد یا جاتے ہوئے   شہر  کی حدود سے نکلنے سے پہلے پہلے تک  بندہ مقیم ہی کہلاتا ہے۔

   خیال رہے کہ سفر میں دو رکعت یا چار رکعت پڑھنے کے معاملے میں  یہ دیکھا جاتا ہے کہ جس وقت میں وہ نماز ادا کررہا ہےاس وقت  وہ مسافر ہے یا مقیم؟ مسافر ہونے کی صورت میں فرضوں کی چار رکعت کے بجائے دو رکعت پڑھی جاتی ہیں اور مقیم ہونے کی صورت میں چار رکعت ادا کی جاتی ہے۔ معاذاللہ عزوجل! نماز قضا ہو جائے ، تو پھرآخری وقت کا اعتبار کیا جاتا ہے، یعنی جب نماز کا وقت ختم ہوا تو وہ مقیم تھایا مسافر تھا،اس کے مطابق قصر کرنے یا نہ کرنے کا حکم ہوگا۔

   واضح رہے کہ جان بوجھ کر نماز قضا کر دینا سخت ناجائز و حرام کام ہے، لہٰذا آپ سے جو نمازیں قضا ہوئیں، اس پر توبہ کرنا بھی آپ کے اوپر لازم ہے۔

   تنویر الابصار و درمختار میں ہے:”(والمعتبر فی تغییر الفرض آخر الوقت فان کان) المکلف(فی آخرہ مسافرا وجب رکعتان والا فاربع)۔ ملخصاً“یعنی فرض تبدیل ہونے کے لئے آخری وقت کا اعتبار کیا جاتا، لہٰذا اگر مکلف آخری وقت میں مسافر ہو، تواس پر دو رکعت پڑھنا واجب ہے، ورنہ چار رکعت پڑھنا لازم ہے۔(درمختار مع ردالمحتار، جلد2، صفحہ738،مطبوعہ: کوئٹہ(

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم