صفوں کو برابر کرنے کی کیا اہمیت ہے؟

 

صفوں میں مل کر کھڑے ہونے کا حکم؟

مجیب:مولانا سید مسعود علی عطاری مدنی

فتوی نمبر:Web-1978

تاریخ اجراء:19ربیع الثانی1446ھ/23اکتوبر2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   صف میں اتصال  یعنی  نمازیوں کا آپس میں مِل مِل کر کھڑے ہونے کا حکم  کئی احادیث میں آیا ہے اور علما نے بھی اس پر عمل کرنے کے حوالے سے تاکید بیان فرمائی کہ اس پر احادیث میں وعید بھی وارد ہوئی ہے۔ اب اگر کوئی  شخص یہ کہے کہ  صفوں میں مل کر کھڑے ہونے کا حکم  اب قابلِ عمل نہیں رہا ، تو کیا اس کی یہ بات درست ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   صفوں میں مل کر کھڑے  ہونے کے متعلق آج کل مسلمانوں میں  کوتاہی  پائی جاتی ہے ،  لیکن  اس کا حکم آج بھی ویسے  ہی باقی ہے جیسے  نبی پاک صلی اللہ علیہ  واٰلہٖ وسلم نے اپنے زمانے میں ارشاد فرمایا تھا ،   آج  کے زمانے میں بھی    مفتیانِ کرام   انہی احادیث مبارکہ کی وجہ سے  اتصالِ صفوف کا حکم تاکید کے ساتھ ارشاد فرماتے ہیں ، لہٰذا    یہ کہنا درست نہیں کہ آج کے دور میں  یہ حکم قابلِ عمل نہیں  رہا ، ایسا کہنے والے کو   درست مسئلے سے آگاہ کیا جائے  اور  سمجھایا جائے ۔

   صفوں میں مل کر کھڑے ہونے کے  متعلق  نبی پاک صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”الا تصفون خلفی کما تصف الملائکۃ عند ربھم ؟ قالو! وکیف تصف الملائکۃ عند ربھم؟ قال:یتمون الصفوف المقدمۃ ویتراصون فی الصف“یعنی تم میرے پیچھے اس طرح صف کیوں نہیں بناتے،جس طرح فرشتے اپنے رب کے حضور صف بناتے ہیں؟صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کیا:فرشتے اپنے رب کے حضور کیسے صف بناتے ہیں؟ارشاد فرمایا:وہ اگلی صفوں کو مکمل کرتے ہیں اور صف میں خوب مل کر کھڑے ہوتے ہیں۔(سنن ابی داؤد،جلد1،صفحہ106،  مطبوعہ  لاہور)

   اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ صف کے واجبات کو بیان کرتے ہوئے  ارشاد فرماتے ہیں:”دربارۂ صفوف شرعاً تین باتیں بتاکیدِاکیدماموربہ ہیں اور تینوں آج کل معاذاﷲ کالمتروک ہورہی ہیں، یہی باعث ہے کہ مسلمانوں میں نااتفاقی پھیلی ہوئی ہے۔ اول: تسویہ کہ صف برابر ہو،خم نہ ہو، کج نہ ہو،مقتدی آگے پیچھے نہ ہوں،سب کی گردنیں، شانے، ٹخنے آپس میں محاذی ایک خط مستقیم پرواقع ہوں جو اس خط پرکہ ہمارے سینوں سے نکل کر قبلہ معظمہ پر گزراہے، عمود ہو،دوم : اتمام کہ جب تک ایک صف پوری نہ ہو، دوسری نہ کریں، اس کا شرع مطہرہ کو وہ اہتمام ہے کہ اگرکوئی صف ناقص چھوڑے ،مثلاً ایک آدمی کی جگہ اس میں کہیں باقی تھی، اسے بغیر پوراکیے پیچھے اور صفیں باندھ لیں، بعد کو ایک شخص آیا، اس نے اگلی صف میں نقصان پایا، تو اسے حکم ہے کہ ان صفوں کو چیرتاہوا جاکروہاں کھڑا ہو اور اس نقصان کو پوراکرے،کہ انہوں نے مخالفتِ حکم شرع کرکے خود اپنی حرمت ساقط کی۔ جو اس طرح صف پوری کرے گا ،اﷲ تعالی اس کے لیے مغفرت فرمائے گا۔سوم: تراص یعنی خوب مل کر کھڑاہونا کہ شانہ سے شانہ چھلے۔ اﷲعزوجل فرماتاہے:﴿صَفًّا کَاَنَّہُمۡ بُنۡیَانٌ مَّرْصُوۡصٌ ترجمہ:گویا وہ عمارت ہے رانگاپلائی ہوئی۔ رانگ پگھلا کر ڈال دیں،تو سب درزیں بھرجاتی ہیں،کہیں رخنہ فرجہ نہیں رہتا، ایسی صف باندھنے والوں کو مولی سبحٰنہ وتعالیٰ دوست رکھتا ہے۔۔۔ یہ بھی اسی اتمامِ صفوف کے متممات سے اور تینوں امر شرعاً واجب ہیں کما حققناہ فی فتاوٰنا وکثیر من الناس عنہ غافلون۔جیسا کہ ہم نے اپنے فتاوٰی میں اس کی  تحقیق کردی ہے اور بہت سے لوگ اس سے غافل ہیں۔“(فتاوی رضویہ، جلد7،  صفحہ 219  تا223،رضا فاؤنڈیشن لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم