Sahib e Tarteeb Ka Sari Zindagi Ki Namazain Dobara Parhna

 

جس کی کوئی نماز قضا نہ ہو، وہ ساری زندگی کی نمازیں دوبارہ پڑھ سکتا ہے؟

مجیب:مفتی  محمد  قاسم عطاری

فتوی نمبر:HAB-0464

تاریخ اجراء: 25جمادی الاُولیٰ 1446ھ/28نومبر      2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ اگر کوئی شخص صاحب ترتیب ہو لیکن پھر بھی  اپنی زندگی بھر کی ساری نمازیں  محض احتیاطی طور پر دوبارہ پڑھنا چاہتا ہو ،تو کیا شریعت مطہرہ اس کی اجازت دیتی ہے ؟میں نے ایک عالم صاحب سے سنا ہے کہ جب وہ  نمازیں دُہرائے گا تو مغرب کی  چار رکعتیں پڑھےگا! کیا یہ بات درست ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جس شخص کی نمازوں میں کسی قسم کی کراہت و نقصان  نہ ہو تو  اس کے لیے ساری عمر کی نمازیں دوبارہ  نہ پڑھنا ہی بہتر ہے ،لیکن اگر وہ پھر بھی پڑھتا ہے، تو ایسا کرنا ، جائز ہے ،گناہ نہیں  اور یہ بھی یاد رہے کہ پوری زندگی کی نمازوں کا دُہرانا اس طور پر کرے کہ پہلی کامل خشوع سے نہیں پڑھی گئی ہوں گی ، تو اب کامل نماز کی کوشش کروں گا، نہ یہ کہ پہلے تو کچھ ڈھنگ سے نمازیں پڑھی تھیں اور اب اتنی ساری دُہرانے کے لئے پہلے سے زیادہ بے احتیاطی یا بداحتیاطی کے ساتھ پڑھے یا پڑھنا ہی اس لئے ہو کہ بعد میں جہاں کہیں چار بندوں میں  بیٹھے،  وہاں اپنا تقوی جھاڑنے اور اعادے کی بھرپور ریاکاری کا اعلان کرتا پھرے کہ اس صدی میں زندگی بھر کی نمازوں کا اعادہ مجھ ہستی کو دستیاب ہوا ہے۔ آج کے زمانے میں  اخلاق کی اصلاح، قلبی و باطنی بیماریوں کے علاج ، تلاوت و ذکر و درود کے مستحباتِ قطعیہ اور اصل شرعی احکام کی طرف توجہ کم اور نئے نئے انداز اور کام نکالنے کے شوق زیادہ ہیں۔

   بہرحال جو نمازیں دُہرانا چاہے اس کے لئے  تفصیل یہ ہے کہ چونکہ  یہ نمازیں بغیر کسی کراہت و خرابی کے محض احتیاطی طور پر دوبارہ  پڑھی جارہی ہیں ،اس لئے  ایک اعتبار سے یہ نفل ہیں ،لہٰذا

   (1)جن اوقات  میں نمازِ نفل پڑھنا مکروہ ہے،ان اوقات میں ان نمازوں کو ادا نہ کرے ۔

   (2)تمام نمازوں کی ہر  رکعت میں مکمل قراءت  کرے جیسے نفل میں کی جاتی ہے۔

   (3)وتر و مغرب میں دوسرے قعدہ کے بعد ایک اور رکعت ملائے تاکہ چار رکعتیں ہوجائیں۔

   ساری عمر کی نمازیں احتیاطاً دوبارہ پڑھنے کے متعلق فتاوٰی تاتارخانیہ ،فتاوٰی عالمگیری  اور غمز عیون البصائر  میں ہے ، بالفاظ متقاربۃ :” في العتابية عن أبي نصر - رحمه الله - فيمن يقضي صلوات عمره من غير أن فاته شيء يريد الاحتياط فإن كان لأجل النقصان والكراهة فحسن وإن لم يكن لذلك لا يفعل، والصحيح أنه يجوز إلا بعد صلاة الفجر والعصر وقد فعل ذلك كثير من السلف لشبهة الفساد، كذا في المضمرات “ترجمہ:فتاوٰی عتابیہ میں امام ابو نصر رحمہ اللہ  سے اس شخص کے متعلق  کہ جو اپنی زندگی بھر کی نمازیں قضا کرنا چاہتا ہے حالانکہ اس کی نمازوں میں کوئی شے فوت نہیں ہوئی وہ  ایسا محض احتیاطاً کرنا چاہتا ہے ،یہ مروی ہے   کہ اگر یہ نمازوں میں ہونے والے نقصان و کراہت کی وجہ سے ہو تو بہتر ہے اور اگر اس وجہ سےنہ ہو تو وہ ایسا نہ کرے اور صحیح قول کے مطابق ایسا کرنا ، جائز ہے مگر یہ کہ نمازِ فجر و عصر کے بعد (نہ کرے)اور بلاشبہ  فساد ِ نماز کے شائبہ کے پیش نظر  یہ تو کثیر سلف صالحین نے کیا ہے، ایسا ہی مضمرات میں ہے ۔(الفتاوی التاتارخانیۃ،ج02،ص 457،کوئٹہ) (الفتاوی الھندیۃ،ج01،ص 137،دار الکتب العلمیہ)(غمز عیون البصائر ،ج01،ص 205، دار الکتب العلمیہ)

   درمختار میں ہے :”(ولا يصلي بعد صلاة) مفروضة (مثلها) في القراءة أو في الجماعة أو لا تعاد عند توهم الفساد للنهي. وما نقل أن الإمام قضى صلاة عمره، فإن صح نقول كان يصلي المغرب والوتر أربعا بثلاث قعدات“ترجمہ:اور فرض نماز کے بعد اس کی مثل نماز نہ پڑھی جائے ،مثل سے مراد جو قراءت میں یا جماعت میں اس کے جیسی ہو یا یہ مراد ہے کہ فساد کے وہم کی وجہ سے اس کا اعادہ نہ کیا جائے کہ یہ منع ہے اور جو حضرت امام اعظم علیہ الرحمۃ سے مروی ہے کہ آپ نے زندگی بھر کی نمازوں کی قضا کی تو اگر یہ نقل صحیح ہے تو ہم کہتے ہیں کہ آپ علیہ الرحمۃ تین قعدوں سے مغرب  و وتر کی  چار رکعت پڑھتے تھے ۔

   اس کے تحت رد المحتار میں ہے :” (قوله وما نقل إلخ) جواب عن سؤال وارد على الوجه الثالث، فإن هذا المنقول ينافي حمل النهي عليه، إذ يبعد أن يكون ما صلاه الإمام أولا مشتملا على خلل محقق من مكروه أو ترك واجب، بل الظاهر أنه أعاد ما صلاه لمجرد الاحتياط وتوهم الفساد.والجواب أولا أنه لم يصح نقل ذلك عن الإمام، وثانيا أنه لو صح نقول إنه كان يصلي المغرب والوتر أربع ركعات بثلاث قعدات كما نقله في البحر عن مآل الفتاوى: أي ويكون حينئذ إعادة الصلاة لمجرد توهم الفساد غير مكروه، ويكون النهي محمولا على غير هذا الوجه۔۔رأيت في فصل قضاء الفوائت من التتارخانية أن الصحيح جواز هذا القضاء إلا بعد صلاة الفجر والعصر، وقد فعله كثير من السلف لشبهة الفساد اهـ وعلى هذا لا يصح حمل الحديث على الوجه الثالث“ترجمہ:(شارح علیہ الرحمۃ کا قول :اور جو امام اعظم سے منقول ہے )یہ تیسری توجیہ پر وارد ہونے والے اعتراض کا جواب ہے ، وہ یہ ہے کہ امام اعظم  کے متعلق منقول یہ روایت حدیثِ  ممانعت کو اس توجیہ پر محمول کرنے کے منافی ہے ،کیونکہ یہ بعید ہے کہ امام اعظم نے جو اولاً نمازیں پڑھیں  وہ سب مکروہ یا ترکِ واجب کی وجہ سے کسی خلل محقق پر مشتمل تھیں  بلکہ ظاہر یہ ہے کہ آپ علیہ الرحمۃ نے صرف احتیاط اور فسادِ نماز کے شائبہ کے پیش نظر زندگی بھر کی نمازوں کو دہرایا،  تو اس کا جواب یہ ہے کہ اولاً تو  امام اعظم کے متعلق اس روایت کی نقل صحیح نہیں اور ثانیاً اگر یہ صحیح ہو تو ہم کہتے ہیں کہ آپ علیہ الرحمۃ مغرب و وتر کی چار رکعتیں تین قعدوں سے پڑھتے تھے ،جیساکہ یہ بات بحر میں مآل الفتاوٰی کے حوالے سے منقول ہے یعنی تو اس صورت میں محض فسادِ نماز کے شائبے کے پیش نظر نمازوں کو دہرانا مکروہ نہ ہوگا اور حدیث ممانعت اس کے علاوہ دوسری توجیہ پر محمول ہوگی ۔۔(علامہ شامی کہتے ہیں ) میں  نے تاتارخانیہ کی فصل قضاء الفوائت میں دیکھا کہ  صحیح قول کے مطابق یہ قضا  جائز ہے مگر یہ کہ نمازِ فجر و عصر کے بعد (نہ کرے)اور بلاشبہ یہ اعادہ تو شبہہ فساد کی وجہ سے  کثیر سلف صالحین نے کیا ہےاور اس کے مطابق حدیث ممانعت کو تیسری توجیہ پر محمول کرنا درست نہیں ۔              (رد المحتار علی الدر المختار،ملتقطا،ج02،ص36،37،دار الفکر ،بیروت)

   ان نمازوں کے احکام کے متعلق حاشیۃ الطحطاوی علیٰ مراقی الفلاح میں ہے :” ومن قضى صلاة عمره مع أنه لم يفته شيء منها احتياطا قيل يكره وقيل لا لأن كثيرا من السلف قد فعل ذلك لكن لا يقضي في وقت تكره فيه النافلة والأفضل أن يقرأ في الأخيرتين السورة مع الفاتحة لأنها نوافل من وجه فلأن يقرأ الفاتحة والسورة في أربع الفرض على احتماله أولى من أن يدع الواجب في النفل ويقنت في الوتر ويقعد قدر التشهد في ثالثته ثم يصلي ركعة رابعة فإن كان وترا فقد أداه وإن لم يكن فقد صلى التطوع أربعا ولا يضره القعود وكذا يصلي المغرب أربعا بثلاث قعدات“ترجمہ:اور جو اپنی زندگی کی ساری نمازیں محض احتیاطا ً قضا کرے باوجود یہ کہ اس کی نمازوں میں کوئی بھی چیز فوت نہ ہوئی ہو تو ایک قول کے مطابق یہ مکروہ اور دوسرے قول کے مطابق مکروہ نہیں کیونکہ کثیر سلف صالحین نے ایسا کیا ہے لیکن جن اوقات میں نفل مکروہ ہے ،ان اوقات میں اس کو قضا نہ کیا جائے  اور بہتر یہ ہے کہ تیسری و چوتھی رکعت میں بھی مکمل قراءت کرے  یعنی سورہ فاتحہ و سورت دونوں پڑھے ،کیونکہ یہ نمازیں ایک اعتبار سے نفل ہیں اور اس وجہ سے بھی کہ نفل کے احتمال کی وجہ سے فرائض کی چاروں رکعتوں میں سورہ فاتحہ و سورت پڑھنا ، نفل میں واجب چھوڑدینے سے زیادہ بہتر ہے اور وتر میں دعائے قنوت پڑھے اور تشہد کی بقدر تیسری رکعت میں قعدہ بھی کرے پھر چوتھی رکعت بھی ملائے تو اگر یہ وتر ہوئی تو وہ ادا ہوجائے گی اور اگر وہ وتر نہ ہوئی تو چار نفل رکعتیں ادا کرنا کہلائے گا اور اس صورت میں تیسری پر قعدہ کرنے سے نماز پر کوئی فرق نہیں پڑے گا اور اسی طرح وہ مغرب کی چار رکعتیں تین قعدوں کے ساتھ ادا کرے گا ۔(حاشیۃ الطحطاوی علیٰ مراقی الفلاح،ج01،ص 447،دار الكتب العلميہ، بيروت ، لبنان)

   صدر الشریعہ  مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ  بہار شریعت میں لکھتے ہیں :”جس کی نمازوں میں نقصان و کراہت ہو وہ تمام عمر کی نمازیں پھیرے تو اچھی بات ہے اور اگر کوئی خرابی نہ ہو  تو نہ چاہئے اور کرے تو فجر و عصر کے بعد نہ پڑھے اور تمام رکعتیں بھری پڑھے اور وتر میں قنوت پڑھ کر تیسری کے بعد قعدہ کرے پھر ایک اور ملائے کہ چار ہوجائیں ۔“ (بھار شریعت ،ج01،ص 708،مکتبۃ المدینہ ،کراچی )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم